یہ امرتا کی پہلی کتاب تھی جو پاکستان میں ان کی اجازت سے شائع ہوئی۔ اسے احمد سلیم نے مزید خوبصورت بنایا۔ پڑھیے مشرق و مغرب کے ان نامور لیکن حساس ادیبوں کا تذکرہ، جن کی زندگیاں نامساعد حالات کے سبب گویا پیش از وقت گُل ہو گئیں۔ یہ تفصیلات بہت دردمندی سے یکجا کی گئی ہیں۔
یہ امرتا کی پہلی کتاب تھی جو پاکستان میں ان کی اجازت سے شائع ہوئی۔ اسے احمد سلیم نے مزید خوبصورت بنایا۔ پڑھیے مشرق و مغرب کے ان نامور لیکن حساس ادیبوں کا تذکرہ، جن کی زندگیاں نامساعد حالات کے سبب گویا پیش از وقت گُل ہو گئیں۔ یہ تفصیلات بہت دردمندی سے یکجا کی گئی ہیں۔
پڑھیے اس خطے کے بارے میں جس کی تاریخ ویسے نہ لکھی گئی جیسا کہ حق تھا۔ خطہ پوٹھوہار کے ہی اک فرزند، راجا امجد منہاس نے اپنی دھرتی سے اپنی محبت کو مکتوب کر کے امر کر دیا ہے۔ یہ کتاب اس خطے کی شخصیات اور علاقے پر اک جاندار اور تاریخی تعارف مہیا کرتی ہے۔ پڑھیں اور لطف اٹھائیں۔
یہ ناول، اس میں بیان کردہ کہانی آپ کو بہت عرصہ گداز رکھے گی۔ انسانی رشتوں، بالخصوص محبت، وچھوڑے اور اس سے جڑے وہ انسانی جذبات جو انسانوں کو عموما حالات کے رحم و کرم پر لیے پھرتے ہیں؛ ان کا تذکرہ آپ کو اداس کرے گا، اور شاید آپ اس ناول کی کہانی میں اپنے سے جڑے لطیف جذبات میں مماثلت بھی تلاش کر لیں۔
ابھی اردو پڑھنے والے جمیل عباسی کے نام سے زیادہ واقف نہیں۔ ہمارا مفت مشورہ ہے کہ ان پر نظر رکھیے۔ وہ تارڑ کے اسلوب پر ہیں۔ لکھتے رہیں گے تو شاندار نام کمائیں گے۔ سندھ کے دیہی علاقے سے ہیں اور تو عین انہی علاقوں کے انسانوں کی نمائندگی کرتی تحاریر آپ کے لیے لائے ہیں۔ سندھ پڑھیے، سندھ والوں کو پڑھیے۔
یہ تارڑ کا سفرِ حج ہے، اور بےپناہ محبت، عقیدت اور حساسیت کا بیان لیے ہوئے ہے۔ جدید اردو میں شاید ہی اس سے بہتر سفرِ حج لکھا گیا ہو۔ کتاب میں سعودی معاشرت پر مشاہدہ ہے اور اپنی ذات کے بیتے تجربات بھی۔ آقا محمدﷺ کا تذکرہ کئی مقامات پر ایسا ہے کہ آنکھیں بھر آتی ہیں۔ پڑھیے؛ یہ کتاب یاد رکھیں گے۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
سید رفیق حسین کے افسانوں کا یہ واحد مجموعہ ہے۔ یہ پرانی مگر کلاسیکی کتاب ہے اور اس کا اسلوب و بیان اردو پڑھنے والوں کے ہر دور میں زندہ رہا ہے اور ہر دور میں زندہ بھی رہےگا۔ اس کتاب میں ان کے افسانے اور ان پر اردو لکھنے والوں کے سات شاندار مضامین ہیں۔ کہانی سے محبت کرنے والوں کے لیے تحفہ ہے۔ پڑھیے۔
فاروق عادل صاحب پاکستان کے نہایت ہی تجربہ کار اور سئنیر سیاسی صحافی رہے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے پاکستانی سیاست و معاشرت کے جانے پہچانے ناموں کے خاکے تحریر کیے ہیں جن سے ان کی ملاقاتیں رہیں۔ میاں طفیل، نصرت بھٹو، قاضی حسین احمد، ائیرمارشل اصغر خان اور بہت سے دیگر۔ یہ بہت پرلطف پڑھنے والی کتاب ہے۔
شاندار منظر اور کردار نگاری آپ کو مبہوت کر دے گی۔ پڑھیے کہ بظاہر اک دوسرے سے کٹے ہوئے لوگ، اک معاشرے میں مگر کیسے اک دوسرے کی کہانیوں کے حصے بن جاتے ہیں۔ یہ پاکستان نہیں، دنیا میں بسنے والے ہر عام شخص کی کہانی ہے۔ ضامن علی کے کردار کی حتمی اٹھان، آپ کو حیران کر دے گی۔
محمد الیاس اردو کہانی نویسی اور ناول نگاری میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔ یہ ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے اور ان افسانوں کا موضوع وہی پرانا ہے: انسان، معاشرتی تضادات اور پاکستانی معاشرت میں موجود پسے ہوئے طبقات کی مسلسل چہد و بےچارگیاں جنہیں وہ ساری عمر سہتے رہتے ہیں۔ حساس مگر پڑھنے کی بہترین تحاریر ہیں۔
محمد بن قاسم کا نام بھی اب ہمارے ہاں، سلطان محمود غزنوی کی طرح کنٹروورسی کو جنم دے چکا ہے۔ کچھ انہیں حملہ آور سمجھتے ہیں تو کچھ انہیں مجاہد۔ طرفین کو یقینا اپنی آراء رکھنے کا جمہوری حق حاصل ہے۔ دونوں صورتوں میں مگر ان کے بارے میں پڑھ لینا ہی بہتر ہے۔ تو کتاب اٹھائیے، اور خود ہی جان لیجیے۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
پڑھیے فاتح اندلس کے بارے میں اور فتح اندلس کے یپچھے تاریخی واقعات و حالات کا تسلسل۔ یہ کتاب طارق بن زیاد کی زندگی اور ان کی سپہ سالاری کی شاندار عکاسی کرتی ہے۔ تاریخ کے طلبا، بالخصوص اسلامی تاریخ کے طلبا کے لیے یہ کتاب خاص تحفہ ہے۔
عتیق رحیمی اک افغان ہیں اور یہ ناول انہوں نے فرانسیسی زبان میں تحریر کیا جس کا شاندار ترجمہ ارجمند آرا نے کیا۔ یہ افغانستان کی کہانی ہے جس میں اک نوجوان بیوی اپنے اک شوہر کے ساتھ مخاطب جو ہے اپنی گردن پر گولی لگنے کے بعد سے کومہ میں ہے۔ پڑھنے کی کتاب ہے دوستو۔ آپ کو اداس کرے گی، مگر حقیقت ہے!
ہیرلڈ لیم کی تاریخی تحریر ہو اور عنایت اللہ کا ترجمہ؛ تو یہ کتاب آپ کیوں نہیں پڑھیں گے؟ امیر تیمور کی دہلی کے حوالے سے وحشت و بربریت کی اپنی حقیت ہے، مگر اس کے ساتھ ہی وہ اپنی آبائی ملک کے وفادار حکمران بھی تھے۔ یہ کتاب ان کی زندگی، فتوحات اور امور مملکت کا عمدہ احاطہ کرتی ہے۔ پڑھیے جناب۔
اپنے وطن، شہر، قصبے اور گاؤں سے بچھڑے ہر شخص کے دل کی آواز ہے یہ کتاب۔ کہتے ہیں کہ اس کتاب کی کوئی صنف نہیں، مگر اس کتاب میں آپ کو بہت ساری اصناف اک دوسرے سے باہم مربوط مل جائیں گی۔ اپنی مٹی، ماں، زبان اور گلی محلوں سے محبت اور ان کی یاد رکھنے والے ہر شخص کو یہ کتاب پڑھنا چاہیے۔