اپنے وطن، شہر، قصبے اور گاؤں سے بچھڑے ہر شخص کے دل کی آواز ہے یہ کتاب۔ کہتے ہیں کہ اس کتاب کی کوئی صنف نہیں، مگر اس کتاب میں آپ کو بہت ساری اصناف اک دوسرے سے باہم مربوط مل جائیں گی۔ اپنی مٹی، ماں، زبان اور گلی محلوں سے محبت اور ان کی یاد رکھنے والے ہر شخص کو یہ کتاب پڑھنا چاہیے۔
اپنے وطن، شہر، قصبے اور گاؤں سے بچھڑے ہر شخص کے دل کی آواز ہے یہ کتاب۔ کہتے ہیں کہ اس کتاب کی کوئی صنف نہیں، مگر اس کتاب میں آپ کو بہت ساری اصناف اک دوسرے سے باہم مربوط مل جائیں گی۔ اپنی مٹی، ماں، زبان اور گلی محلوں سے محبت اور ان کی یاد رکھنے والے ہر شخص کو یہ کتاب پڑھنا چاہیے۔
یہ کتاب امروز نے امرتا کی محبت میں تخلیق کی۔ انہی کی زبانی پڑھیے: "میں امرتا کو بہت سے ناموں سے بلاتا ہوں۔ آشی سے لے کر برکتے تک۔ مجھے جو بھی خوبصورت لگتا ہے، اسی نام سے میں اسے پکارنے لگتا ہوں۔ یہ خطوط میرا سرمایہ ہیں اور میں امرتا کی خود گزشت "رسیدی ٹکٹ" کا حصہ بھی۔" گداز اور وفا پڑھیے دوست۔
یہ کتاب فیض پر ہے اور ڈاکٹر آصف اعوان کے قلم سے ہے اور فیض کی شاعری کے حواشی اور اشارایہ پر مبنی ہے جو ڈاکٹر صاحب نے حروف تہجی کے تحت اکٹھے کر دیے ہیں۔ یہ عشاقان فیض کے لیے تحفہ، خاص تحفہ ہے۔
اس "دستاویز" کو کتاب کہنا کچھ مشکل کام محسوس ہوتا ہے۔ یہ حسنین جمال کی زندگی، تجربات، مشاہدات اور کہیں کہیں معمولات کی شاندار داستان ہے جس کی "دستاویز بندی" خود انہوں نے بہت خلوص، سادگی، محبت اور سب سے بڑھ کر، سچائی سے کی ہے۔ پڑھیے اور زندگی کے شاندار تجربات سمجھیے اور ان سے لطف اٹھائیے۔
اس کتاب میں کسی بڑے آدمی کی کوئی کہانی نہیں۔ اس میں کسی وزیراعظم، کسی صدر، وزیر،مشیر، سفیر، سرکاری بابوؤں یا ارب پتیوں کی کہانیاں نہیں۔ ان سے دوستیوں، میل میلاپوں کی داستانیں نہیں۔ اس کتاب میں عام، لاچار،بے بس انسانوں کی داستانیں ہیں۔ پڑھیے اور ان کے دکھ سکھ میں سانجھ کیجیے۔
یہ نیلوفر اقبال کے افسانوں پر مبنی تیسری کتاب ہے اور وہ عام علامتوں میں سے کہانی کشید کرنے کا شاندار ہنر رکھتی ہیں۔- اپنی تحاریر کی روایت کے عین مطابق، ان کی یہ کتاب بھی وہ کہانیاں بیان کرتی ہے جنہیں پڑھتے ہوئے قاری ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ وہ 1989 سے افسانہ نویس ہیں۔ شاندار کتاب ہے۔ پڑھیے جناب۔
پڑھیے فاتح اندلس کے بارے میں اور فتح اندلس کے یپچھے تاریخی واقعات و حالات کا تسلسل۔ یہ کتاب طارق بن زیاد کی زندگی اور ان کی سپہ سالاری کی شاندار عکاسی کرتی ہے۔ تاریخ کے طلبا، بالخصوص اسلامی تاریخ کے طلبا کے لیے یہ کتاب خاص تحفہ ہے۔
دینہ میں پیدا ہونے والے سمپورن سنگھ کالرا سے کون واقف نہیں جو اردو کو نجانے کب سے "گلزار" بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے کسی تعارف کی کوئی ضرورت بھی ہے بھلا؟ یہ ان کے تحریر کردہ افسانے ہیں دوستو۔ پڑھیں گے تو ان کی نثر کے جادو اور نشے میں جھومتے رہیں گے۔
تارڑ صاحب آپ کو اس بار حراموش لیے جاتے ہیں جو مواصلات کے اس دور میں بھی پہنچنے کے لیے اک مشکل جگہ ہے۔ تارڑ صاحب مگر عرصہ ہوا وہاں پہنچ گئے تھے۔ یہ کتاب آپ کو شمالی پاکستان کے ان پیارے اور خوبصورت لوگوں سے ملا دے گی جو آج بھی فطرت کی گود میں رہتے اور جیتے ہیں۔ پڑھیں گے تو جان اور مان جائیں گے۔
یہ حسن منظر کی کہانیوں کا پانچواں مجموعہ ہے اور آپ کو جذب کر لیتا ہے۔ اس کتاب میں ان کے لکھاری بن جانے کے ابتدائی دنوں کی بھی چار کہانیاں شامل ہیں۔ وہ دنیا گھومے ہوئے ہیں اور انسانوں اور معاشروں کی نفسیات کے طالبعلم ہیں، اور نفسیاتی معالج بھی۔ ان کی تحاریر کی بُنت بھی ایسی ہی ہے۔ پڑھیے دوست، پڑھیے۔
پڑھئے آفتاب اقبال شمیم کے کلیات، مختلف طرز اور طریقوں میں۔ یہ اک بھرپور اک ان کے کلام کی تقریبا مکمل کتاب ہے تقریبا مکمل اس لیے کہ شاعر صرف وہ ہی نہیں کہتا جو چھپا ہوتا ہے۔ شاعر تو اپنی دھن اور موج میں بہت کچھ کہے چلے جاتا ہے۔ جو چھپ جاتا ہے، وہ غنیمت رہتا ہے۔ اس کتاب کو مِس نہ کیجیے جناب۔
یہ شاندار کتاب ستار طاہر صاحب کا انمول تحفہ ہے اور آپ کو تاریخی علم اور کتب کی تاریخ اور ارتقاء کے بارے میں رہنمائی فراہم کرے گی۔ یہ کتاب آپ کو بھرپور مشاہدہ عطا کرتی ہے اور آپ ہزاروں برسوں پر محیط دانش کی لازوال کتابوں کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پڑھیے اور ان گنت کتب کے بارے میں جانیے۔
یہ ممتاز مفتی کی مشہور زمانہ کتاب ہے۔ یہ ان کا سفرنامہ حج ہے جو اک گہرے جذب کی حالت میں تحریر کیا گیا۔ یہ کتاب آپ کے دل پر بھی اثر کر جائے گی۔ پڑھیے گا تو اس کتاب کو یاد رکھیں گے۔ لبیک ایسی کتاب ہے جو کبھی بھی پرانی یا "بوڑھی" نہیں ہو گی۔
اس کتاب کے مصنف، جوسٹین گارڈر فلسفہ پڑھاتے تھے تو عین اسی مضمون کی پیچیدگیاں بہت ہی آسان فہم زبان میں "سوفی کی دنیا" میں بیان کر ڈالیں۔ جناب حمید شاہد نے بھی کمال ہی ترجمہ کیا۔ اسے پڑھیے گا تو ہی اس کی علمی گہرائی اور اچھوتے خیال سے واقف ہوں گے۔ یہ آپ کو فلسفہ کی 3000 سالہ تاریخ سے جوڑ دے گا۔
فیروز مکر جی کا فن پاکستان میں زیادہ نہیں جانا جاتا۔ وہ لندن میں رہتی ہیں، مگر ان کا دل برصغیر پاک و ہند کی عورت کے ساتھ ہی دھڑکتا ہے۔ ان کی یہ کتاب نہ صرف آپ کو جنوبی ایشائی خطے، بلکہ وہ جہاں رہتی ہیں، وہاں کے انسانوں کی کہانیاں بھی سناتا ہے۔ یہ دلچسپ اور پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ پڑھیے دوست۔
محمد بن قاسم کا نام بھی اب ہمارے ہاں، سلطان محمود غزنوی کی طرح کنٹروورسی کو جنم دے چکا ہے۔ کچھ انہیں حملہ آور سمجھتے ہیں تو کچھ انہیں مجاہد۔ طرفین کو یقینا اپنی آراء رکھنے کا جمہوری حق حاصل ہے۔ دونوں صورتوں میں مگر ان کے بارے میں پڑھ لینا ہی بہتر ہے۔ تو کتاب اٹھائیے، اور خود ہی جان لیجیے۔