عرفان احمد نے کیا ہی شاندار کتاب مرتب کی ہے، آنسٹلی! اس کتاب میں آپ کو پاکستان کے جانے پہنچانے لوگوں کی مطالعہ کی عادات کا تعارف ملتا ہے: ڈاکٹر اسلم فرخی، زاہدہ حنا، ڈاکٹر مبارک علی، مولانا زاہد الراشدی اور دیگر کئی۔ یہ بہت دلچسپ اور خیال کو تر کرنے والی کتاب ہے۔ آپ کو لازما پڑھنا چاہیے۔
عرفان احمد نے کیا ہی شاندار کتاب مرتب کی ہے، آنسٹلی! اس کتاب میں آپ کو پاکستان کے جانے پہنچانے لوگوں کی مطالعہ کی عادات کا تعارف ملتا ہے: ڈاکٹر اسلم فرخی، زاہدہ حنا، ڈاکٹر مبارک علی، مولانا زاہد الراشدی اور دیگر کئی۔ یہ بہت دلچسپ اور خیال کو تر کرنے والی کتاب ہے۔ آپ کو لازما پڑھنا چاہیے۔
شاندار منظر اور کردار نگاری آپ کو مبہوت کر دے گی۔ پڑھیے کہ بظاہر اک دوسرے سے کٹے ہوئے لوگ، اک معاشرے میں مگر کیسے اک دوسرے کی کہانیوں کے حصے بن جاتے ہیں۔ یہ پاکستان نہیں، دنیا میں بسنے والے ہر عام شخص کی کہانی ہے۔ ضامن علی کے کردار کی حتمی اٹھان، آپ کو حیران کر دے گی۔
یہ ابدال بیلا کی اپنی تصنیف ہے جو انہوں نے خشونت سنگھ کے اسی نام سے اورینجل ناول، ٹرین ٹو پاکستان، کے حصہ دوم کے طور پر لکھی اور اسے خشونت سنگھ کے نام ہی منسوب بھی کیا۔ یہ بہت مختصر میں گداز والا ناول ہے جو آپ کو یاد رہے گا۔ کیا ہی عمدہ ہو کہ اس کے ساتھ ہی آپ خشونت سنگھ کا ناول بھی پڑھ لیں۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
جین نام کی اک یتیم لڑکی سے ملیے جس کی زندگی مشکلات سے اٹی پڑی ہے، مگر اسے اپنی قدر و قمیت اور ذہانت کا ادراک بھی ہے۔ وہ جبر اور ناانصافی کے سامنے ڈٹ جانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اپنے نظریات و جذبات کے مابین مشکل فیصلے بھی کر گزرتی ہے۔ سیف الدین حسام کا شاندار ترجمہ اور ہر کسی کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔
اس کتاب میں ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ممتاز مفتی صاحب کے ان افسانوں کا تجزیہ کیا ہے جو ان کے نزدیک کوئی نہ کوئی روحانی جہت رکھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کتاب کا تعارف لکھتے اور افسانوں کا تجزیہ کرتے "مجھ پر بہت دلچسپ انکشافات ہوئے۔" ممتاز مفتی کو پڑھنے والے، یہ کتاب پڑھ کر ان کی روحانی جہت کو سمجھ سکیں گے۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
شمس الرحمٰن فاروقی اپنی ذات میں خود ہی اک عہد تھے۔ وہ اردو ادب پر بےشمار احسانات کر گئے۔ ناول ہو یا افسانہ، وہ صف اول کے لکھاری رہے۔ وہ ادب کو سمجھتے تھے، اور خود ہی ادب تھے۔ انہیں سمجھنا ہو تو ان کی تحاریر پڑھنا لازم ہے۔ یہ ان کے شاندار افسانوں کا مجموعہ ہے پڑھیں گے تو شمس کو "شمس" جانیں گے۔
یہ انتظار حسین صاحب کے افسانوں کی چھٹی کتاب تھی اور اس میں 17 افسانے ہیں۔ اپنی کہانیوں میں انہوں نے مختلف موضوعات کو استعاراتی انداز میں اٹھایا اور بیان کیا ہے۔ ان کی یہ کہانیاں ماضی کی پرچھائیوں، بھولی بسری یادوں اور تقسیم ہند سے پیدا ہونے والے معاشرتی المیے پر ہیں۔ پڑھیے جناب؛ پڑھیے۔
تاریخ، اور بالخصوص اسلام سے جڑے ہوئے معاملات کی تاریخ پر مولانا وحید الدین بہت گہری رکھتے تھے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ طوالت سے بچتے ہوئے، بہت مشکل معاملات کو سادہ الفاظ میں اختصار کے ساتھ بیان کر ڈالا۔ ہمارا اصرار ہے کہ تاریخ سے جڑی ان کی تمام کتب کا مطالعہ شعور اور فہم کی پختگی کے لیے ضروری ہے۔
درخت زندہ ہوتے ہیں، یہ ہم سب جانتے ہیں۔ درختوں سے کیا باتیں کی جا سکتی ہیں، یہ اسد سلیم شیخ صاحب ہم سے کہیں بہتر جانتے ہیں۔ اپنے خطے کے ان درختوں کے بارے میں اک فرسٹ پرسن گفتگو پڑھیے جو آپ کو اپنے بچپن کے مناظر اور یادوں میں لے جائیں گی۔ ہمارے علاقوں کے یہ درخت ہم سے روٹھ رہے ہیں۔ انہیں منا لیجیے!
خشونت سنگھ صاحب کو آپ پراپر پنجابی کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ کتاب تو ہر پنجابی پر پڑھنا لازم ہے، مگر جو پنجابی نہیں ہیں، وہ بھی لازمی پڑھیں اور سردار جی کے گدگداتے ہوئے انداز میں کیے گیے شاندار بیان کے ذریعے پنجاب، پنجابیوں اور پنجابیت کو جان لیں۔ یہ کتاب آپ کو بہت لطف دے گی۔ وعدہ ہے!
کرشن چندر شاندار ناول اور افسانہ نگار تھے۔ وہ انڈیا کے بٹوارے کا زخم ساری عمر اپنے دل میں لیے زندہ رہے۔ ان کی تحاریر بنیادی طور پر انسانی ٹریجڈیز کے گرد گھومتی ہیں۔ ناول یا افسانے، کرشن چندر ہمیشہ سے ہی پڑھنے والے لکھاری رہے ہیں اور رہیں گے۔ پڑھیے جناب۔
بقول صفدر میر، یونس جاوید نے اپنی تحاریر میں معاشرے کے تضادات کے درست پس منظر کی نشان دہی کی ہے اور وہ عموما معاشرے میں موجود انہی تضادات کے پیدا کردہ المیوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ یونس جاوید کے افسانے پڑھنے والا ان کی مشاہدے کی حساسیت کا گواہ ہوتا ہے۔ آپ بھی بن جائیے۔
اجمل کمال، کمال کے ادب دوست شخص ہیں۔ یہ ان کا کیا ہوا ترجمہ ہے جس کے اصل لکھاری کوشلیہ کمارسنگھے، سری لنکن ہیں۔ مختصر مگر بہت دلچسپ ناول ایک ہفتے کے بیان پر مشتمل ہے جو اس ناول کے کئی کرداروں سے پیش آتے ہیں۔ یہ سری لنکن نہیں، جنوبی ایشائی کہانی ہے۔ یہ ہم سب کی کہانی ہے۔ پڑھیے دوست۔ لازما۔