بقول صفدر میر، یونس جاوید نے اپنی تحاریر میں معاشرے کے تضادات کے درست پس منظر کی نشان دہی کی ہے اور وہ عموما معاشرے میں موجود انہی تضادات کے پیدا کردہ المیوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ یونس جاوید کے افسانے پڑھنے والا ان کی مشاہدے کی حساسیت کا گواہ ہوتا ہے۔ آپ بھی بن جائیے۔
بقول صفدر میر، یونس جاوید نے اپنی تحاریر میں معاشرے کے تضادات کے درست پس منظر کی نشان دہی کی ہے اور وہ عموما معاشرے میں موجود انہی تضادات کے پیدا کردہ المیوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ یونس جاوید کے افسانے پڑھنے والا ان کی مشاہدے کی حساسیت کا گواہ ہوتا ہے۔ آپ بھی بن جائیے۔
پڑھیے رؤف کلاسرہ کے قلم سے پاکستانی سیاست کے مرکزی کرداروں کے بارے میں اور پاکستانی سیاست کے بارے میں بھی کہ درون خانہ یہ کیسے چلتی ہے۔ چوہدری شجاعت، جنرل علی قلی خان، آفتاب احمد شیرپاؤ، آصف علی زرداری اور بہت سے دیگر سیاسی کرداروں کے بارے میں جانیے۔ پڑھنے والی کتاب ہے جناب۔
صدیق عالم کی مختصر کہانیوں کا یہ پہلا مجوعہ ہے اور اس میں وہ آپ کو بھارتی سماج کی چکر کھاتی راہداریوں اور گلیوں میں لیے جاتے ہیں۔ ہمارا خطہ ایک ہی ہے تو آپ کو یہ کتاب پڑھتے ہوئے اپنے ہاں کی بھی بہت مماثلتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ وہاں کی نہیں، یہاں کی کہانیاں ہیں۔ پڑھیں جناب۔ پڑھیں!
ہمارا ماننا ہے کہ اس ناول کو اردو ادب میں وہ مقام نہ مل سکا جو ملنا چاہیے تھا۔ یہ ناول پاکستان کے دیہی معاشرے کے پس منظر میں تحریر کیا گیا ہے۔ آپ کو اس میں شہباز خان کا بہت بھرپور کردار پڑھنے کو ملے گا، بہت ہی بھرپور۔ معاشرتی تضادات اور اس میں مذہب و سرکار کا کردار۔۔۔پڑھنے کی کتاب ہے صاحبو۔
مسعود مفتی کبھی سرکاری افسر تھے۔ وہ پاکستان کی بنتی بگڑتی تاریخ کے شاہد ہیں اور عین انہی مشاہدات کو انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے خود ان کے بقول "زندہ تاریخ کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔" کتاب کا انتساب "اس پاکستان کے نام جو ٹوٹ رہا تھا" ہے۔ پڑھیے گا نہیں کیا جناب؟
جوانی کے اوائل میں ماسکو جانے والے تارڑ، اب اپنے بڑھاپے کی ابتدا میں وہاں جاتے ہیں۔ ان لوگوں سے ملتے ہیں جن سے ان کی ملاقات کئی دہائیوں قبل ایسے ہوئی تھی کہ تب شناسائی نہ تھی۔ اس کتاب کے آخر میں لیو ٹالسٹائی کی قبر کے ساتھ تارڑ کا اک ایسا مکالمہ ہے جو ازخود اک شاہکار ہے۔ پڑھیے، یہ شاندار بیان ہے۔
یہ انور مسعود کی کتاب ہے۔ اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ پڑھنے والوں کو یہ بتانا بھی ضروری نہیں کہ وہ کون ہیں۔ اس لیے کہ وہ انور مسعود ہیں۔ پڑھیے اور ان کے تخیل کی لطافت کے ہلکورے لیجیے۔
تصوف کو عمومی اور اسلامی تصوف کو خصوصی طور پر سمجھنے اور جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی دہریت کے تشکک سے ایمان کے تیقن تک آنے والے بلند پایہ سکالر تھے اور انہوں نے اپنی زندگی صرف مذہبی ہی نہیں، سماجی و معاشرتی علوم کے لیے وقف کیے رکھی۔ شاندار کتاب ہے جناب۔
اس کتاب میں ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ممتاز مفتی صاحب کے ان افسانوں کا تجزیہ کیا ہے جو ان کے نزدیک کوئی نہ کوئی روحانی جہت رکھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کتاب کا تعارف لکھتے اور افسانوں کا تجزیہ کرتے "مجھ پر بہت دلچسپ انکشافات ہوئے۔" ممتاز مفتی کو پڑھنے والے، یہ کتاب پڑھ کر ان کی روحانی جہت کو سمجھ سکیں گے۔
تبسم ریحان منجھے ہوئے کہانی نویس ہیں جو مختصر اور طویل کہانیاں مہارت سے لکھتے نہیں، بُنتے ہیں۔ طویل کہانی میں کئی مقام ایسے آتے ہیں جہاں لکھاری کو ربط قائم رکھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ تبسم ریحان ایسے تمام مقامات سے بہت سہولت سے گزر جاتے ہیں۔ یہ ان کے افسانوں کی کتاب ہے۔ پڑھیں گے تو مان جائیں گے۔
گرو رجنیش اپنے وقت کے بہت دلچسپ انسان اور کردار تھے۔ انہوں نے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو اپنی تعلیمیات سے مبہوت کیے رکھا۔ انہوں نے انسانوں کو اپنے اندر جھانکنے اور زندگی کی پرتوں کو بسا اوقات متنازعہ طریقے سے کھولنے اور سمجھنے کی تحریک دییے رکھی۔ یہ پر لطف اور "مزیدار" کتاب ہے۔ پڑھیے جناب۔
امرتا پریتم گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں اور انہیں تقسیم ہند کے مرحلہ میں سے گزرنا پڑا۔ یہ ان کی آپ بیتی ہے۔ مختصر کتاب ہے، مگر آپ کو برصغیر کی اس عظیم خاتون مصنفہ کی زندگی کے پراسیس سے گزار دے گی۔ آپ اس پڑھنے کے بعد، امرتا کو کہیں بہتر جاننا شروع کر دیں گے۔ امرتا، برصغیر کا مشترکہ اثاثہ رہیں گی۔
پڑھیے اس خطے کے بارے میں جس کی تاریخ ویسے نہ لکھی گئی جیسا کہ حق تھا۔ خطہ پوٹھوہار کے ہی اک فرزند، راجا امجد منہاس نے اپنی دھرتی سے اپنی محبت کو مکتوب کر کے امر کر دیا ہے۔ یہ کتاب اس خطے کی شخصیات اور علاقے پر اک جاندار اور تاریخی تعارف مہیا کرتی ہے۔ پڑھیں اور لطف اٹھائیں۔
محمد الیاس کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کو ظالموں نے یرغمال بنا رکھا ہے جہاں اکثر ادیب سچ لکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، اور ہمارے معاشرے میں ریاکاری ہے جس میں بہت سی نیکیاں بھی معاشرتی جبر کے تحت کی جاتی ہیں۔ آپ خود ہی اب ذرا ان کہانیوں کے پلاٹس کا اندازہ تو لگائیے۔ کیا آپ اب بھی نہیں پڑھیں گے؟
سہیل پرواز صاحب نے اپنا ذاتی دکھ اور اپنا سینہ اپنے قاری کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہ ان کی شریک حیات، محترمہ رخسانہ مرحومہ کے تذکروں پر مبنی کتاب ہے جن سے جدائی کا خیال لکھاری کے ذہن میں کبھی بھی کہیں بھی نہیں تھا۔ یہ مرحومہ کا محبتی بیان تو ہے ہی، اس میں سیکھنے کو بھی بہت کچھ ہے۔ پڑھیے جناب۔
یونس جاوید مختصر مگر بھرپور اور گہرے وار والا لکھتے ہیں۔ یہ ان کے افسانوں کی کتاب ہے جس میں لکھی گئی کہانیاں ان کے اور ہمارے معاشرے میں ہمارے اردگرد موجود تقریبا ہر طبقے کے کرداروں کے اعمال و احوال کا احاطہ کرتے ہوئے ان کی نفسیاتی پرتیں بھی "پھرولتی" ہیں۔ انہیں پڑھا کیجیے جناب۔
اس کتاب میں صرف امرتا کا ہی شاندار بیان اس ناول کی صورت میں موجود نہیں۔ ا س میں بلراج ورما، راکا سنہا، احمد سلیم کی امرتا سے باتیں اور ان پر بیان ہے۔ خود امرتا نے اس دلگداز اور ایوارڈ یافتہ ناول کا تعارف دیا ہے۔بہت ہی محبت سے بچوں کے نام کی ہے یہ کتاب جو انکے بقول "میری طرح ریاضت کے دکھ نہیں جانتے!"