یونس جاوید مختصر مگر بھرپور اور گہرے وار والا لکھتے ہیں۔ یہ ان کے افسانوں کی کتاب ہے جس میں لکھی گئی کہانیاں ان کے اور ہمارے معاشرے میں ہمارے اردگرد موجود تقریبا ہر طبقے کے کرداروں کے اعمال و احوال کا احاطہ کرتے ہوئے ان کی نفسیاتی پرتیں بھی "پھرولتی" ہیں۔ انہیں پڑھا کیجیے جناب۔
یونس جاوید مختصر مگر بھرپور اور گہرے وار والا لکھتے ہیں۔ یہ ان کے افسانوں کی کتاب ہے جس میں لکھی گئی کہانیاں ان کے اور ہمارے معاشرے میں ہمارے اردگرد موجود تقریبا ہر طبقے کے کرداروں کے اعمال و احوال کا احاطہ کرتے ہوئے ان کی نفسیاتی پرتیں بھی "پھرولتی" ہیں۔ انہیں پڑھا کیجیے جناب۔
پڑھیے شہریار اور درشہور کی محبت کے بہت ہی دلچسپ کیمیا کی کہانی جو جاگیرداری نظام کے معاشرت کے آس پاس بُنی گئی ہے۔ سردار وقار کا کردار آپ کو بالخصوص یاد رہے گا۔ باقی کرداروں کی نفسیاتی بُنت اور اٹھان آپ کو اس کتاب کے ساتھ مسلسل جوڑے رکھی گی اور آپ اسے بھولیں گے نہیں۔ یہ ہر لحاظ سے اک بڑا ناول ہے۔
عاطف علیم نے اچھوتے موضوع پر قلم اٹھایا، اور اک مادہ سنو-لیپرڈ کی نظر سے دنیا کو دیکھا ہے جس میں وہ اپنی اور اپنے "خاندان" کی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ آپ کا دل کس کے لیے پگھلے اور یہی مصنف کے فن کا کمال ہے کہ وہ یہ فیصلہ خود آپ سے ہی کرواتا ہے۔ پڑھیے جناب۔
بالزاک نے اس کتاب میں بےرحمانہ طریقے سے پیرس کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔پیرس کے لوگوں کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، وہ آپ کو چونکا دے گا۔ آپ لرز جائیں گے کہ کیا پیرس کبھی ایسا تھا جہاں غربت، لالچ، حسد، اس سطح پر پہنچے ہوئے تھے کہ بالزاک نے پیرس کو ایک جہنم قرار دے دیا۔ رؤف کلاسرا کا شاندار ترجمہ پڑھیے۔
پڑھیے اور شاکے، کاشی، مبشر اور زفیرہ کے کرداروں کو جانیے۔ یہ مختلف سوشل اور اکنامک کلاسز کی سٹرگلز اور ان کے مابین کشمکش کی وجہ سے جنم لینے والی کہانی ہے جس کے عکس ہمیں اپنے معاشرے میں ملتے رہتے ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے یہ اک بولڈ ناول ہے، مگر آپ کو یاد بھی رہے گا جناب۔
سلمیٰ اعوان کے نام سے اردو ادب پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔ اس کتاب میں ان کے ناولٹس ہیں جن میں دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین کی زندگیوں اور ان کے مسائل کا احاطہ ملتا ہے۔ یہ کتاب آپ کو روس، چین، عراق، ترکی کے علاوہ دیگر ممالک کی خواتین کی زندگیوں میں لے چلے گی۔ لازمی پڑھیے جناب۔
امرتا پریتم کا نام قیامت تک زندہ رہے گا۔ محبت اور اس کا خسارہ پڑھنے والے ان کی تخلیقات کی ہمیشہ کھوج کریں گے۔ زندگی کی تلخیوں کو، جو انہوں نے دیکھیں، نسائیت کے ساتھ نتھی کر کے شاید ہی کسی اور خاتون اردو لکھاری نے ایسا کمال کیا ہو۔ ان افسانوں میں آپ ان کے عورت ہونے کا گداز محسوس کرتے ہیں۔ پڑھیے جناب۔
دینہ میں پیدا ہونے والے سمپورن سنگھ کالرا سے کون واقف نہیں جو اردو کو نجانے کب سے "گلزار" بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے کسی تعارف کی کوئی ضرورت بھی ہے بھلا؟ یہ ان کے تحریر کردہ افسانے ہیں دوستو۔ پڑھیں گے تو ان کی نثر کے جادو اور نشے میں جھومتے رہیں گے۔
قیصر عباس صابر اردو سفرنامہ نگاری کو آگے بڑھانے والوں میں اک نمایاں حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ تارڑ کے اسلوب پر ان کا مگر اپنا یونیک بیان ہے۔ یہ ان کے شمالی علاقہ جات کے سفر کی جھلک ہے جہاں صرف مقام اور لوگ ہی نہیں، ان کا لطیف بیان بھی ان کے اپنے الفاظ میں موجود ہے۔ پڑھیں گے تو تروتازہ ہو جائیں گے۔
سلطان محمود غزنوی کا تذکرہ ہمارے ہاں معاشرتی اور گفتگو کے حوالہ جات سے عموما کنٹرورشل جانا جاتا ہے۔ طرفین کے خیالات کے احترام کر ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، اس کتاب کو ان کی زندگی، فتوحات، طرزحکمرانی اور دیگر تفصیلات کے پیرائے میں پڑھنا عمدہ تجربہ رہے گا۔ یہ ہمارا وعدہ ہے۔ تو پڑھیے جناب۔
محمد الیاس اردو کہانی نویسی اور ناول نگاری میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔ یہ ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے اور ان افسانوں کا موضوع وہی پرانا ہے: انسان، معاشرتی تضادات اور پاکستانی معاشرت میں موجود پسے ہوئے طبقات کی مسلسل چہد و بےچارگیاں جنہیں وہ ساری عمر سہتے رہتے ہیں۔ حساس مگر پڑھنے کی بہترین تحاریر ہیں۔
باری علیگ مرحوم بہت جلد اس دنیا سے چلے گئے۔ وہ بہت شاندار لکھاری اور محقق تھے۔ وہ اردو زبان کو بہت سے تحفے، اپنی بہت مختصر عمر میں ہی دے گئے۔ یہ ان کی اسلامی اور مسلم تاریخ پر اک بہت دلچسپ اور بہت تیزی سے پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ پڑھیے اور تاریخ کے ساتھ ساتھ اس سے جڑے معاشرتی معاملات کو بھی جانیے گا۔
آقا محمدﷺ سے محبت، عشق اور عقیدت کا اس سے بہتر بیان جدید اردو میں شاید ہی موجود ہو۔ تارڑ کئی جگہوں پر کہہ چکے ہیں کہ اس غار میں گزاری اک رات کا تجربہ، ان کی زندگی کے اک بہت بڑے حصے کے تجربے سے بڑا ہے۔ کتاب میں واقعاتی بیان تو موجود ہے ہی، روحانیت کی لہریں بھی آپ کو شاد کرتی ہیں۔ پڑھیے، لازمی پڑھیے۔
ہٹلر کی تحریر کردہ کتاب مائن کمپف کا ترجمہ ہے۔ 1930 میں بغاوت کی اک ناکام کوشش کے بعد، ہٹلر نے یہ کتاب جیل میں تحریر کی تھی۔ اس کتاب نے نازی ازم کے نظریات کو پروان چڑھایا اور اس کا درجن بھر سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ کتاب کا اک حصہ آپ بیتی ہے اور کچھ حصہ سیاسی مقالہ۔ پڑھیے۔
سلمیٰ اعوان کے نام سے اردو ادب پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔ یہ ان کا ناول ہے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے سماجی، معاشرتی اور انسانی واقعات پر بنیاد کرتا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت مارشل لا دور میں بہت مشکل سے ممکن ہو پائی تھی۔ یہ ان کی باقی کتابوں کی مانند، بہت پڑھنے والی کتاب ہے۔ پڑھیے دوست۔
گبرئیل گارسیا مارکیز سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ اک لازمی تحفہ ہے۔ اس مجموعے میں ان کے افسانے، دو ناول، ان کی نوبیل انعام کے موقع پر تقریر اور اپنی زندگی و فن پر اک گفتگو شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے اپنے پسندیدہ ناولز کے منتخب ابواب بھی۔ آپ یہ کتاب بھلا کیوں نہیں چاہیں گے؟