ڈاکٹر انور سدید پاکستان کے مشہور نقاد و صحافی رہے ہیں۔ انکی زندگی قلم و کتاب سے وابستہ رہی۔ یہ ادبی شخصیات کے شخصی خاکوں پر مبنی ان کی دوسری کتاب ہے۔ پڑھیں گے تو حمید اخبر، سجاد نقوی، شفقت تنویر مرزا کے علاوہ اور بہت سی ادبی شخصیات کے بارے میں جانیں گے۔ پڑھیں جناب۔
ڈاکٹر انور سدید پاکستان کے مشہور نقاد و صحافی رہے ہیں۔ انکی زندگی قلم و کتاب سے وابستہ رہی۔ یہ ادبی شخصیات کے شخصی خاکوں پر مبنی ان کی دوسری کتاب ہے۔ پڑھیں گے تو حمید اخبر، سجاد نقوی، شفقت تنویر مرزا کے علاوہ اور بہت سی ادبی شخصیات کے بارے میں جانیں گے۔ پڑھیں جناب۔
سید محمد اشرف بھارت میں رہنے والے اردو ناول اور افسانہ نگار ہیں۔ یہ اک نیم تاریخی اور نیم سوانحی ناول ہے جس نے پرصغیر پاک و ہند کی گنگا جمنی تہذیب کو اپنا موضوع بنایا اور بہترین انصاف کیا۔ یہ اس خطے، بالخصوص بھارت میں مسلمانوں کو زمانہءحال کا حقیقی چہرہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پڑھنے والا ہے۔
کرشن چندر کی تحریر ہو اور آپ اسے کیسے مِس کر سکتے ہیں؟ یہ ناول ان کے حساس دل کی آواز کے عین مطابق ہے جس میں وہ ہندوستانی مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کی تذکرہ بہت تفصیل اور درد سے کرتے ہیں۔ چندر نے اپنی تمام تخلیقات میں عام لوگوں کی بہت خاص کہانیاں بیان کی ہیں۔ لازمی پڑھا کیجیے۔
یہ صدیق عالم کا چوتھا ناول ہے جو 38 گھنٹے کی مدت کا انڈین احوال آپ کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ یہ تیزی سے بدلتے ہوئے انڈین سماج میں معیشت، عدلیہ، فوج، مذہبی جنون، پولیس اور میڈیا پر اک پیچیدہ مگر بہت دلچسپ بیانیہ آپ تک لاتا ہے۔ یہ مختصر ناول آپ اک فہرست میں پڑھ لیں گے کیونکہ یہ بہت دلچسپ ہے۔
سلمیٰ اعوان کے نام سے اردو ادب پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔ یہ ان کا ناول ہے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے سماجی، معاشرتی اور انسانی واقعات پر بنیاد کرتا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت مارشل لا دور میں بہت مشکل سے ممکن ہو پائی تھی۔ یہ ان کی باقی کتابوں کی مانند، بہت پڑھنے والی کتاب ہے۔ پڑھیے دوست۔
تشدد لوگوں اور معاشروں کے ساتھ کرتا کیا ہے، علی سجاد شاہ، عرف ابو علیحہ، نے اس مختصر ناول میں بیان کیا ہے۔ بھارت والے کشمیر میں جاری مسلح کشمکش نے کیسے لوگوں کی زندگیوں پر اثر ڈالے ہیں اور کیسے چند لوگ، اکثریتی نوجوان، مزاحمت پر کیوں آمادہ ہیں، پڑھنے پر جان جائیے گا۔ ایک ہی نشست کی مختصر کتاب ہے۔
بالزاک نے اس کتاب میں بےرحمانہ طریقے سے پیرس کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔پیرس کے لوگوں کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، وہ آپ کو چونکا دے گا۔ آپ لرز جائیں گے کہ کیا پیرس کبھی ایسا تھا جہاں غربت، لالچ، حسد، اس سطح پر پہنچے ہوئے تھے کہ بالزاک نے پیرس کو ایک جہنم قرار دے دیا۔ رؤف کلاسرا کا شاندار ترجمہ پڑھیے۔
پالو کوہیلو کا شاندار ناول اور پھر فہیم احمد صابری صاحب کا بہترین ترجمہ۔ انسانی زندگی کی کہانی جہاں اک شخص کو سوئٹزرلینڈ میں برازیل کی اک طوائف سے محبت ہو جاتی ہے۔ کتاب میں بہت سے صفحات ایسے ہیں جہاں آپ لکھا ہوا جادو پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ پالو کوہیلو کو مس نہ کیا کیجیے۔ کبھی بھی۔
تاریخ، اور بالخصوص اسلام سے جڑے ہوئے معاملات کی تاریخ پر مولانا وحید الدین بہت گہری رکھتے تھے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ طوالت سے بچتے ہوئے، بہت مشکل معاملات کو سادہ الفاظ میں اختصار کے ساتھ بیان کر ڈالا۔ ہمارا اصرار ہے کہ تاریخ سے جڑی ان کی تمام کتب کا مطالعہ شعور اور فہم کی پختگی کے لیے ضروری ہے۔
یہ ناطق کی "انفارمل آٹو بائیوگرافی" کہلوائی جا سکتی ہے۔ ناطق آپ کو اپنے خاندان سے ملواتے ہیں، اپنے گاؤں لیے چلتے ہیں اور اپنی زندگی کے واقعات سے آپ کو سرشار کرتے ہیں۔ اس میں مستریوں کی مزدوری ہے، چوری ہو جانے والی سائیکل ہے، ڈھور ڈنگر ہیں، دوست ہیں۔ بہت عام سا، بہت خاص ہے! پڑھیے۔ یاد رکھیں گے۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
اس کتاب میں موجود مسعود مفتی کے افسانے 1960 کی دہائی کے موضوعات پر ہیں۔ مگر کیا ہی عجب کہ ان افسانوں میں ڈسکس کیے گئے موضوعات ابھی بھی پاکستانی معاشرت کے زندہ اور موجود موضوع ہیں۔ یہ کتاب پڑھیے اور شاید جان جائیے گا کہ کئی معاملات میں ہمارے ہاں وقت تھم سا گیا ہے؛ نجانے کیوں۔
امرتا پریتم کا نام قیامت تک زندہ رہے گا۔ محبت اور اس کا خسارہ پڑھنے والے ان کی تخلیقات کی ہمیشہ کھوج کریں گے۔ زندگی کی تلخیوں کو، جو انہوں نے دیکھیں، نسائیت کے ساتھ نتھی کر کے شاید ہی کسی اور خاتون اردو لکھاری نے ایسا کمال کیا ہو۔ ان افسانوں میں آپ ان کے عورت ہونے کا گداز محسوس کرتے ہیں۔ پڑھیے جناب۔
صدیق عالم بھارت کے شاندار اردو نگار ہیں۔ ان کے ناولز اور کہانیوں نے اردو پڑھنے والے سنجیدہ قارئین کو چونکا رکھا ہے۔ یہ ان کے دو مختصر ناولز کا مجموعہ ہے۔ اس کو پڑھیں گے تو بھارتی مسلمان سماج کی اندرونی کشمکش اور بےسمتی کے کیمیا سے آگاہی حاصل کریں گے۔ یہ آپ اور ہم سے جڑی کوئی کہانیاں اور کردار ہیں۔
وطن عزیز میں ڈاکٹر اقبال سے محبت اور تنقید اب اک پاپولر مضمون بن چکا ہے۔ ہمارے ہاں عقیدت میں بات کو بڑھا چڑھا کر کرنے کا رواج بھی مل جاتا ہے۔ اجمل کمال کی یہ مختصر کتاب مگر بہت سنجیدہ اسلوب لیے ہوئے اس بات کی کوشش کرتے ہے کہ اقبال کو تلاشا جائے، مگر تراشے ہوئے میں سے نہیں۔ پڑھیں گے تو جانیں گے۔