یہ انتظار حسین صاحب کے افسانوں کی چھٹی کتاب تھی اور اس میں 17 افسانے ہیں۔ اپنی کہانیوں میں انہوں نے مختلف موضوعات کو استعاراتی انداز میں اٹھایا اور بیان کیا ہے۔ ان کی یہ کہانیاں ماضی کی پرچھائیوں، بھولی بسری یادوں اور تقسیم ہند سے پیدا ہونے والے معاشرتی المیے پر ہیں۔ پڑھیے جناب؛ پڑھیے۔
یہ ممتاز مفتی کی مشہور زمانہ کتاب ہے۔ یہ ان کا سفرنامہ حج ہے جو اک گہرے جذب کی حالت میں تحریر کیا گیا۔ یہ کتاب آپ کے دل پر بھی اثر کر جائے گی۔ پڑھیے گا تو اس کتاب کو یاد رکھیں گے۔ لبیک ایسی کتاب ہے جو کبھی بھی پرانی یا "بوڑھی" نہیں ہو گی۔
کشور ناہید اپنے مخصوس سُچے، کھرے اور بےتکلف انداز میں اپنے دوست، احباب کا تذکرہ کرتی ہیں جن سے ان کی زندگی میں ملاقاتیں رہی۔ ان کے دوست اور احباب پاکستان کے مشہور ادبی، سماجی و سیاسی لوگ بھی تھے۔ پڑھیں گے تو ان کے بارے میں مزید جان جائیں گے۔ دلچسپ اور بہت عمدہ، مگر مختصر کتاب ہے۔
پڑھیے فاتح اندلس کے بارے میں اور فتح اندلس کے یپچھے تاریخی واقعات و حالات کا تسلسل۔ یہ کتاب طارق بن زیاد کی زندگی اور ان کی سپہ سالاری کی شاندار عکاسی کرتی ہے۔ تاریخ کے طلبا، بالخصوص اسلامی تاریخ کے طلبا کے لیے یہ کتاب خاص تحفہ ہے۔
ٹیگور عظیم لکھاری تھے۔ وہ صرف فکشن رائٹر ہی نہ تھے۔ ان کی دیگر موضوعات بشمول سماج، تاریخ اور انسانی معاشرت کے ارتقاء پر بھی گہری نظر تھی۔ وہ بہت گہرے اور صاحب علم شخص تھے۔ یہ تو محض ان کی شخصیت کا اک چھوٹا سا عکس ہے جو ہم آپ کے لیے لائے ہیں۔ پڑھیے جناب۔
بالزاک نے اس کتاب میں بےرحمانہ طریقے سے پیرس کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔پیرس کے لوگوں کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، وہ آپ کو چونکا دے گا۔ آپ لرز جائیں گے کہ کیا پیرس کبھی ایسا تھا جہاں غربت، لالچ، حسد، اس سطح پر پہنچے ہوئے تھے کہ بالزاک نے پیرس کو ایک جہنم قرار دے دیا۔ رؤف کلاسرا کا شاندار ترجمہ پڑھیے۔
بابا گرو نانک اور پنجاب اک دوسرے کے ساتھ تاقیامت نتھی ہیں۔ اک کے بغیر دوسرے کی داستان نامکمل ہے۔ سکھ مذہب کے بانی اور توحید پرست بابا جی نہ صرف پنجاب، بلکہ دنیا کے تمام معاشروں کا مشترکہ ورثہ ہیں۔ ان کی زندگی، گیان اور سفر کے بارے میں پڑھیے۔ کتاب میں بین المذاہب محبت کا بیان آپ کو بہت لطف دے گا۔
بقول صفدر میر، یونس جاوید نے اپنی تحاریر میں معاشرے کے تضادات کے درست پس منظر کی نشان دہی کی ہے اور وہ عموما معاشرے میں موجود انہی تضادات کے پیدا کردہ المیوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ یونس جاوید کے افسانے پڑھنے والا ان کی مشاہدے کی حساسیت کا گواہ ہوتا ہے۔ آپ بھی بن جائیے۔
تاش کے باون پتوں کی طرح، انسان اور ان سے جڑے معاملات بھی گویا اک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ اپنی طرز کے الگ الگ عوامل جب ملتے ہیں تو جیسے تاش کی بازی کا الگ رنگ بنتا ہے، عین ویسے ہی زندگی کا بھی رنگ الگ ابھرتا ہے۔ پڑھیے ممبئی کی اک طوائف، جمنا کی کہانی اور عظیم مصنف کی شاندار نثر کا لطف لیجیے۔
گویا سچے واقعات پر مبنی یہ محبت، وچھوڑے اور پھر وصال کی تکون پر لکھا مختصر مگر بہت خوبصورت ناول ہے۔ تھوڑا علامتی ہے مگر شہریار مرزا کا کردار شاید آپ کو اپنی محبتی زندگی کی بھی یاد دلا دے گا۔ بس یہ کہ اسے قریبا 25 برس لگ گئے اپنی انارکلی تک پہنچنے میں۔ پڑھیں دوست۔ یاد رکھیں گے۔
اس کتاب میں صرف امرتا کا ہی شاندار بیان اس ناول کی صورت میں موجود نہیں۔ ا س میں بلراج ورما، راکا سنہا، احمد سلیم کی امرتا سے باتیں اور ان پر بیان ہے۔ خود امرتا نے اس دلگداز اور ایوارڈ یافتہ ناول کا تعارف دیا ہے۔بہت ہی محبت سے بچوں کے نام کی ہے یہ کتاب جو انکے بقول "میری طرح ریاضت کے دکھ نہیں جانتے!"
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
دنیا حیرت انگیز معاملات، موجودات اور خیالات کا "عجائب خانہ" ہی تو ہے۔ تو آئیے، اس گھن چکر میں عرفان جاوید کے ساتھ سفر کیجیے۔ یہ منفرد تحاریر زندگی کی ایسی گُتھیوں کو سلجھاتی نظر آتی ہیں جنہیں ہم عام زندگی کی روٹین میں کبھی سوچتے بھی نہیں۔ یہ کتاب پڑھیے۔ یہ آپ کو بہت سارے صفحات پر چونکائے رکھے گی۔
عامر صدیقی کا انتخاب ہو اور پھر ترجمہ بھی انہی کا تو کتاب پڑھنے والی خودبخود بن ہی جاتی ہے۔ یہ سندھی شہروں، قصبوں اور دیہاتی لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ یہ وہ عام کہانیاں ہیں جن میں سے بہت ساری شاید ہم پر خود بھی کبھی بیتی ہونگی۔ یہ پڑھنے والی دلچسپ کہانیاں آپ کو سندھ لیے چلیں گی؛ چلیں گے؟
سکینہ جلوانہ کا تعلق بہاولپور سے ہے اور ان کی خصوصیت سادہ زبان اور سادے انداز میں اپنی بات کو کہہ ڈالنا ہے۔ وہ اسی اسلوب سے روزمرہ کی باتوں اور واقعات کی تصویریں بناتی ہیں۔ وہ اپنے فن کو بہت عمدہ جانتی ہیں اور یہی ان کی کہانیوں کی خوبی بھی ہے۔ ان کی کہانیاں پڑھیے دوست، لطف رہے گا!
یہ کتاب فیض پر ہے اور ڈاکٹر آصف اعوان کے قلم سے ہے اور فیض کی شاعری کے حواشی اور اشارایہ پر مبنی ہے جو ڈاکٹر صاحب نے حروف تہجی کے تحت اکٹھے کر دیے ہیں۔ یہ عشاقان فیض کے لیے تحفہ، خاص تحفہ ہے۔