احمد بشیر مرحوم کی صاحبزادی، نیلم احمد بشیر کا اپنا بیان عین اپنے والد کے اسلوب پر ہے: سیدھا اور سچا۔ وہ اپنے واقعات و مشاہدات کو کہانی میں ڈھالنے کا فن جانتی ہیں اور یہ تو آپ کو ان کی کتابیں پڑھ کر ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ یہ ابھی ان کے افسانوں کی کتاب ہے۔ پڑھیے گا تو ہی لطف اٹھائے گا۔
لیجیے۔ اجمل کمال صاحب پھر آ گئے۔ اور اس مرتبہ "اچھی اردو" پر اپنے شریر لہجے میں کچھ کہنے کو آئے ہیں۔ یہ ان کے ہلکے پھلکے، تنقیدی اور آسانی سے پڑھے جانے والے مضامین ہیں جو اچھی اردو کا لطف آمیز آپریشن کرتے ہیں۔ آپ یہ کتاب پڑھیں گے تو اردو کی "عین قاف" کی مشکلات سے آزاد ہو جائیں گے۔ شروع کیجیے دوست۔
پالو کوہیلو کا شاندار ناول اور پھر فہیم احمد صابری صاحب کا بہترین ترجمہ۔ انسانی زندگی کی کہانی جہاں اک شخص کو سوئٹزرلینڈ میں برازیل کی اک طوائف سے محبت ہو جاتی ہے۔ کتاب میں بہت سے صفحات ایسے ہیں جہاں آپ لکھا ہوا جادو پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ پالو کوہیلو کو مس نہ کیا کیجیے۔ کبھی بھی۔
ٹیگور عظیم لکھاری تھے۔ وہ صرف فکشن رائٹر ہی نہ تھے۔ ان کی دیگر موضوعات بشمول سماج، تاریخ اور انسانی معاشرت کے ارتقاء پر بھی گہری نظر تھی۔ وہ بہت گہرے اور صاحب علم شخص تھے۔ یہ تو محض ان کی شخصیت کا اک چھوٹا سا عکس ہے جو ہم آپ کے لیے لائے ہیں۔ پڑھیے جناب۔
یہ کتاب فیض پر ہے اور ڈاکٹر آصف اعوان کے قلم سے ہے اور فیض کی شاعری کے حواشی اور اشارایہ پر مبنی ہے جو ڈاکٹر صاحب نے حروف تہجی کے تحت اکٹھے کر دیے ہیں۔ یہ عشاقان فیض کے لیے تحفہ، خاص تحفہ ہے۔
اجمل کمال آپ کے لیے لائے ہیں اک بار پھر اپنے انتخاب سے عربی کہانیاں۔ شاندار ترجمہ جو آپ کو کتاب میں دلچسپی کے ساتھ انگیج رکھے گا۔ اس کتاب کو پڑھیے اور یوسف ادریس، زکریا تامر، الیفہ رفعت، نبیل جورجی اور طیب صالح کے علاوہ اور بہت سے عربی لکھاریوں کے اسلوب کا لطف لیجیے۔ یاد رکھیں گے، دوست۔
ایملی برانٹے کا یہ ناول 1846 کی تحریر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے انسانی بیانیے کی وحشیانہ سچائی مزید ابھر کر سامنے آتی جا رہی ہے۔ یہ عشق اور آبسیشن کی داستان ہے؛ پاگل کردینے والا منفی عشق جو انسانوں کو وحشیوں کی لائن میں کھڑا کر دیتا ہے۔ سیف الدین حسام کا شاندار اور لازوال ترجمہ ہے۔ پڑھیے۔
کرشن چندر کی نسل کے لکھاریوں کے سینوں پر تقسیم ہند اور اس سے جڑے انسانی المیات کے گہرے زخم تھے۔ ہم وحشی ہیں بھی کرشن چندر کے دوسرے ناول، غدار، کی طرح انہی زمانوں پر اک تکلیف دہ بیان ہے۔ تہذیب کے دعویدار انسانوں کو، جو ان زمانوں میں ہوا، زیب نہیں دیتا تھا۔ پڑھیے دوست۔
یہ مختصر ناول آپ کو ٹائم اینڈ سپیس کی گھمن گھیریوں میں لے جائے گا۔ پرانے دہلی میں اک شخص کا قصہ جو چند ساعتوں میں ہی اپنے موجودہ زمانے سے دو صدیاں آگے نکل جاتا ہے۔ وقت کے پلوں تلے بہت سا پانی گزر چکا ہے، اور اسے دو صدیاں قبل کا شخص ہونے کے باوجود، دو صدیاں بعد کے زمانے میں جینا ہوتا ہے۔ پڑھیے۔
1947 کی اس تقسیم پر لکھا گیا جس کے نقوش شاید تاقیامت کروڑوں دلوں پر موجود رہیں گے۔ قاری کو چونکا دینے والا۔ یہ ناول آپ کو ان زمان و مکاں میں لے جائے گا جہاں اور جب متحدہ ہندوستان کی کوکھ سے دو آزاد ملک جنم لے رہے تھے۔ انسانی نفسیات پر آپ کو تنقید اور کاٹ پڑھنے کو ملے گی۔
غلام عباس دھیمے لہجیے میں بہت کام کی باتیں کہہ جانے والے افسانہ نویس تھے۔ ان کا اسلوب اپنے وقت کا "ٹرینڈ-سیٹر" تھا۔ ان کے تقریبا تمام شہرہ آفاق افسانے اس کتاب کا حصہ ہیں۔ آرڈر کیجیے اور پڑھیے جناب۔
مولانا وحید الدین خان اختصار کے ساتھ زندگی کے فلسفے بیان کرنے میں کمال رکھتے تھے۔ 2021 میں اپنے ابدی سفر کو روانہ ہو گئے۔ ان کی اپروچ اور ان کی کتب، انہیں ہمارے درمیان ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ پیپر بیک ایڈیشن میں پڑھیے اور زندگی کے مسائل کو طریقے سے ہینڈل کرنے کا سیکھیے۔
اس کتاب میں کسی بڑے آدمی کی کوئی کہانی نہیں۔ اس میں کسی وزیراعظم، کسی صدر، وزیر،مشیر، سفیر، سرکاری بابوؤں یا ارب پتیوں کی کہانیاں نہیں۔ ان سے دوستیوں، میل میلاپوں کی داستانیں نہیں۔ اس کتاب میں عام، لاچار،بے بس انسانوں کی داستانیں ہیں۔ پڑھیے اور ان کے دکھ سکھ میں سانجھ کیجیے۔
یہ اک لڑکی، یوجین کی کہانی ہے جو برسوں اپنے گاؤں میں اپنے محبوب کا انتظار کرتی ہے۔ کڑوی باتیں برداشت کرتی ہے۔ سات برس بعد جب انتظار ختم ہوا تو ایک سانحہ یوجین کا منتظر تھی۔اس میں آپ کو فرانسیسی معاشرے کے ہر طرح کے کردار ملیں گے۔ رؤف کلاسرا نے ترجمہ کر کے اردو میں بھی بالزاک کو امر کر دیا۔
دینہ میں پیدا ہونے والے سمپورن سنگھ کالرا سے کون واقف نہیں جو اردو کو نجانے کب سے "گلزار" بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے کسی تعارف کی کوئی ضرورت بھی ہے بھلا؟ یہ ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کی کتاب ہے۔ پڑھیں گے تو ان کی نثر کے جادو اور نشے میں جھومتے رہیں گے۔