سلمیٰ اعوان کے نام سے اردو ادب پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔ یہ ان کا ناول ہے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے سماجی، معاشرتی اور انسانی واقعات پر بنیاد کرتا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت مارشل لا دور میں بہت مشکل سے ممکن ہو پائی تھی۔ یہ ان کی باقی کتابوں کی مانند، بہت پڑھنے والی کتاب ہے۔ پڑھیے دوست۔
سلمیٰ اعوان کے نام سے اردو ادب پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔ یہ ان کا ناول ہے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے سماجی، معاشرتی اور انسانی واقعات پر بنیاد کرتا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت مارشل لا دور میں بہت مشکل سے ممکن ہو پائی تھی۔ یہ ان کی باقی کتابوں کی مانند، بہت پڑھنے والی کتاب ہے۔ پڑھیے دوست۔
لیو ٹالسٹائی انتون چیخوف کو "لاثانی فنکار" کہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ چیخوف کی "تخلیقات سارے عالمِ انسانیت کے لیے ہیں۔" بین الاقوامی ادب میں یہ کہانیاں اس کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ مختصر کہانیاں زندگی کی تجربات اور مشاہدات کے بیان سے بھرپور ہیں۔ سید محمد مہدی کا ترجمہ ہے۔ پڑھنا تو پڑے گا جناب۔
سلمیٰ اعوان کے نام سے اردو ادب پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔ اس کتاب میں ان کے ناولٹس ہیں جن میں دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین کی زندگیوں اور ان کے مسائل کا احاطہ ملتا ہے۔ یہ کتاب آپ کو روس، چین، عراق، ترکی کے علاوہ دیگر ممالک کی خواتین کی زندگیوں میں لے چلے گی۔ لازمی پڑھیے جناب۔
یہ فیودور دستوئیفسکی کا آخری ناول ہے جسے دُنیا کے ہر نقاد نے عظیم ترین ناولوں میں شمارکیا۔ ناول کا ہیرو الیوشا روسی قومیت اور مذہبیت کی اعلیٰ ترین پیداوار ہے اور اسے اپنی سرزمین اور ماحول سے بہت گہرا اور سچا لگاؤ ہے۔ اردو میں اسے شاہد حمید صاحب نے امر کر دیا۔ روسی ادب کا لیجنڈ ہے؛ پڑھیے جناب۔
صدیق عالم کی مختصر کہانیوں کا یہ پہلا مجوعہ ہے اور اس میں وہ آپ کو بھارتی سماج کی چکر کھاتی راہداریوں اور گلیوں میں لیے جاتے ہیں۔ ہمارا خطہ ایک ہی ہے تو آپ کو یہ کتاب پڑھتے ہوئے اپنے ہاں کی بھی بہت مماثلتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ وہاں کی نہیں، یہاں کی کہانیاں ہیں۔ پڑھیں جناب۔ پڑھیں!
اس دنیا میں جب جب سچ کی بات ہو گی، تب تب سقراط کا تذکرہ ہو گا۔ یونان کے اس عظیم فلسفی کے بارے میں پڑھیے اور جانیے کہ ان کی زندگی کے حالات کیا تھے اور ان کے اختتامی واقعات بھی کیسے رہے۔ یہ صرف تاریخ ہی نہیں، خود کی بہتری کرنے کی بھی شاندار کتاب ہے۔ لازمی پڑھی جانی چاہیے۔
وطن عزیز میں ڈاکٹر اقبال سے محبت اور تنقید اب اک پاپولر مضمون بن چکا ہے۔ ہمارے ہاں عقیدت میں بات کو بڑھا چڑھا کر کرنے کا رواج بھی مل جاتا ہے۔ اجمل کمال کی یہ مختصر کتاب مگر بہت سنجیدہ اسلوب لیے ہوئے اس بات کی کوشش کرتے ہے کہ اقبال کو تلاشا جائے، مگر تراشے ہوئے میں سے نہیں۔ پڑھیں گے تو جانیں گے۔
یہ کتاب جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی کی تاریخ کا تجزیہ پیش کرتی ہے اور اس دعوے کی تحقیق کرتی ہے کہ آیا ان واقعات کی صحت و سچائی کیا ہے۔ مغربی دنیا میں ہالوکاسٹ پر بات کرنا عموما ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ پڑھنے پر، قاری تاریخ کے اس اہم مبینہ واقعہ پر معلومات حاصل کر سکیں گے۔
یہ طاہرہ اقبال کے طویل افسانوں پر مشتمل کتاب ہے۔ ان طویل افسانوں کو ہم ناولٹس بھی کہہ سکتے ہیں گو کہ تکنیک کا فرق ہوتا ہے۔ وہی ان کا قلم ہے اور وہی پاکستانی معاشرے میں بالخصوص خواتین کے مسائل اور ان سے جڑے معاشرتی، سماجی، خاندانی اور مذہبی مسائل۔ یہ دل گداز کر دینے والی کتاب ہے۔ پڑھیے جناب۔
ایڈورڈ ڈی بونو کہتے ہیں کہ کامیاب لوگ چیزوں کو ان کی حقیقی قدر و قیمت کے مطابق اہمیت دیتے ہیں اور سوچنے کا عمل ایک مہارت کے طور پر سیکھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر ہی معلوم ہو سکے گا کہ تعمیری سوچ کا زاویہ اپنے اختیار میں کیسے رکھا جا سکتا ہے۔ لائبہ خان نے شاندار ترجمہ کیا ہے۔
تارڑ کے ساتھ چلیں۔ وہ آپ کو لاہور لیے چلتے ہیں۔ آپ اگر لاہور میں رہتے بھی ہیں تو بھی تارڑ آپ کو وہاں وہاں لیے جائیں گے جہاں آپ شاید ہی پہلے کبھی گئے ہونگے۔ پرانا لاہور دیکھیے، پڑھیے اور کہیں کہیں نئے لاہور کا تذکرہ بھی دیکھیے۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ لاہور کے جادو کے مزید قائل ہو جائیں گے۔
عرفان احمد نے کیا ہی شاندار کتاب مرتب کی ہے، آنسٹلی! اس کتاب میں آپ کو پاکستان کے جانے پہنچانے لوگوں کی مطالعہ کی عادات کا تعارف ملتا ہے: ڈاکٹر اسلم فرخی، زاہدہ حنا، ڈاکٹر مبارک علی، مولانا زاہد الراشدی اور دیگر کئی۔ یہ بہت دلچسپ اور خیال کو تر کرنے والی کتاب ہے۔ آپ کو لازما پڑھنا چاہیے۔
محمد حمید شاہد صاحب کے افسانے ہوں۔ مقدمہ اور انتخاب عرفان جاوید کا ہو۔ آپ اس کتاب کو کیوں نہیں پڑھیں گے بھلا؟ افسانہ نویس بھی جادوگر، انتخاب کرنے اور مقدمہ لکھنے والا بھی جادوگر۔ یہ کتاب بس جادو ہی ہے۔ پڑھیں جناب۔
یہ مختصر کتاب اختر حامد خاں کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں وہ اپنے ذاتی اور لوگوں کے ساتھ اپنے تجربات اور سبق شئیر کرتے ہیں۔ کتاب کے آخری تین چار صفحات آپ کو بہت چونکا دیں گے کیونکہ یہ ان کی زندگی کا سبق ہیں۔ وہ 1921 میں پیدا ہوئے اور یہ کتاب 2000 میں چھپی۔ پڑھیے اور ان کے تجربہ سے سیکھیے دوست۔
آقا محمدﷺ کے حوالے سے کچھ بھی جو پڑھنے کو ملے، اس کی اپنی افادیت ہے۔ یہ کتاب مگر تھوڑی مختلف ہے۔ اس میں آقاؐ کی زندگی کے ہنسے مسکراتے پہلوؤں کو آپ کے سامنے لایا گیا ہے جو عموما ہماری معاشرتی روایات میں دیکھنے کو نہیں ملتے۔ پڑھیے، اور آقاؐ کی خوبصورت مسکراہٹوں کے ساتھ مسکرائیے۔
ڈاکٹر انور سدید پاکستان کے مشہور نقاد و صحافی رہے ہیں۔ انکی زندگی قلم و کتاب سے وابستہ رہی۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی کے مشہور لوگوں کے شاندار خاکے تحریر کیے ہیں۔ آپ ان کی اس کلیکشن میں شان الحق حقی، طاہر لاہور، شریف کنجاہی کے علاوہ اور بہت سی ادبی شخصیات کے بارے میں جانیں گے۔ پڑھیں جناب۔
قونیہ کے رومی سے دنیا کے ہر کونے کے لوگ محبت کرتے ہیں اور صدیوں سے ان کی حکایات، اشعار اور کلام تمام مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں کو مبہوت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ آپ نے اگر یہ کتاب رومی کے حوالے سے نہیں پڑھی، تو پڑھیے۔ رومی کو جانیے۔ جانیں گے، تو مانیں کے!