اس کتاب میں نیلم احمد بشیر اپنی بہنوں کے خاکے لکھتی ہیں اور کیا ہی شاندار مضامین ہیں پڑھنے کو۔ اپنے ابو، احمد بشیر مرحوم کا بھی شاندار تذکرہ ہے اور کتاب کے آخر تک آپ کو ان چار بہنوں میں اپنے ابو کی شخصیت اور تربیت کے عکس ملتے ہیں۔ یہ بہت خوبصورت کتاب ہے، بہت۔ پڑھنے والی ہے جناب۔
اس کتاب میں نیلم احمد بشیر اپنی بہنوں کے خاکے لکھتی ہیں اور کیا ہی شاندار مضامین ہیں پڑھنے کو۔ اپنے ابو، احمد بشیر مرحوم کا بھی شاندار تذکرہ ہے اور کتاب کے آخر تک آپ کو ان چار بہنوں میں اپنے ابو کی شخصیت اور تربیت کے عکس ملتے ہیں۔ یہ بہت خوبصورت کتاب ہے، بہت۔ پڑھنے والی ہے جناب۔
اس ناول میں محمد الیاس پاکستانی معاشرے میں موجود جاگیردارنہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے بینییفشریز کے اس گٹھ جوڑ پر تبصرہ کرتے ہیں جس میں یہ دونوں طبقات عوام کی اکثریت کو مختلف طریقوں اور طاقتوں سے دبائے رکھتے ہیں۔ یہ برصغیر پاک و ہند کے دبے ہوئے طبقات کے حالات کا بیان ہے۔ کھلے دل سے پڑھیے، لازمی۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
محمد الیاس صاحب کی اس کتاب میں ان کے 12 افسانے اور اک ناولٹ شامل ہے۔ وہ عام لوگوں کا درد لکھتے ہیں۔ پڑھا کیجیے۔ کتاب کا انتساب ہی اس کا تعارف ہے: "کچرے کے ڈھیروں سے کتے، بلیوں، چوہوں اور کیڑے مکوڑوں کی طرح پیٹ کی بھوک مٹاتی اولاد آدم کے نام، جن کے حصے کا رزق ان کے حکمران لوٹ لے گئے!" تو پھر جناب؟
اس کتاب میں صرف امرتا کا ہی شاندار بیان اس ناول کی صورت میں موجود نہیں۔ ا س میں بلراج ورما، راکا سنہا، احمد سلیم کی امرتا سے باتیں اور ان پر بیان ہے۔ خود امرتا نے اس دلگداز اور ایوارڈ یافتہ ناول کا تعارف دیا ہے۔بہت ہی محبت سے بچوں کے نام کی ہے یہ کتاب جو انکے بقول "میری طرح ریاضت کے دکھ نہیں جانتے!"
ایڈورڈ ڈی بونو کہتے ہیں کہ کامیاب لوگ چیزوں کو ان کی حقیقی قدر و قیمت کے مطابق اہمیت دیتے ہیں اور سوچنے کا عمل ایک مہارت کے طور پر سیکھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر ہی معلوم ہو سکے گا کہ تعمیری سوچ کا زاویہ اپنے اختیار میں کیسے رکھا جا سکتا ہے۔ لائبہ خان نے شاندار ترجمہ کیا ہے۔
ایملی برانٹے کا یہ ناول 1846 کی تحریر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے انسانی بیانیے کی وحشیانہ سچائی مزید ابھر کر سامنے آتی جا رہی ہے۔ یہ عشق اور آبسیشن کی داستان ہے؛ پاگل کردینے والا منفی عشق جو انسانوں کو وحشیوں کی لائن میں کھڑا کر دیتا ہے۔ سیف الدین حسام کا شاندار اور لازوال ترجمہ ہے۔ پڑھیے۔
سلطان محمود غزنوی کا تذکرہ ہمارے ہاں معاشرتی اور گفتگو کے حوالہ جات سے عموما کنٹرورشل جانا جاتا ہے۔ طرفین کے خیالات کے احترام کر ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، اس کتاب کو ان کی زندگی، فتوحات، طرزحکمرانی اور دیگر تفصیلات کے پیرائے میں پڑھنا عمدہ تجربہ رہے گا۔ یہ ہمارا وعدہ ہے۔ تو پڑھیے جناب۔
پڑھیے جنوبی افریقہ سے جے ایم کوٹسی کا شاندار ناول جو برطانوی نوآبادیاتی تسلط اور ظلم و ستم کی وجہ سے معاشرے کے موضوعات کا کھوج کرتا ہے۔ اس شاندار ناول کو بین الاقوامی پذیرائی حاصل ہو چکی ہے اور اسے اردو میں ممتاز مترجم، صدیق عالم نے بھرپور طریقے سے ڈھالا ہے۔ شاندار ناول، شاندار بیان؛ آپ کے لیے!
درخت زندہ ہوتے ہیں، یہ ہم سب جانتے ہیں۔ درختوں سے کیا باتیں کی جا سکتی ہیں، یہ اسد سلیم شیخ صاحب ہم سے کہیں بہتر جانتے ہیں۔ اپنے خطے کے ان درختوں کے بارے میں اک فرسٹ پرسن گفتگو پڑھیے جو آپ کو اپنے بچپن کے مناظر اور یادوں میں لے جائیں گی۔ ہمارے علاقوں کے یہ درخت ہم سے روٹھ رہے ہیں۔ انہیں منا لیجیے!
ٹیپو سلطان شہید کے والد صاحب کے بارے میں پڑھیے کہ انہوں نے کیسے اپنی قابلیت و انتظام سے میسور کو اک مثالی اور شاندار ریاست بنا ڈالا۔ ان کی سیاست، حکمت، تدبر، فتوحات اور سفارت کے بارے میں جانیے۔ یہ کتاب آپ کو اک عرصہ یاد رہے گی ،دوست۔
کشور ناہید صاحبہ کی یہ کتاب ان کے تاثرات پر مبنی ہے جو انہوں نے دنیا کے لکھاریوں اور محققین کے بارے میں تحریر کیے ہیں۔ آپ کو اس کتاب میں جہاں ادب، تحقیق اور صحافت کے "دیوؤں" کا تذکرہ ملتا ہے، وہیں آپ کو ان کے بارے میں لکھاری کے جذبات اور تاثرات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ بہت عمدہ پڑھنے والی کتاب ہے۔
یہ خشونت سنگھ کا اوریجنل ناول ہے جس کا اتنا ہی شاندار اردو ترجمہ مسعود منور نے کیا۔ تقسیم ہند کے وقت یہ اک محبت کرنے والے جوڑے کی کہانی ہے جس کے آس پاس آپ کو معاشرے کے بہت سارے دیگر کردار بھی ملیں گے۔ پڑھنے پر آپ سوچیں گے کہ تب سے اب تک، بدلا کیا ہے؟ ابدال بیلا نے اسی نام سے حصہ دوم تحریر کیا ہے۔
ڈاکٹر انور سدید پاکستان کے مشہور نقاد و صحافی رہے ہیں۔ انکی زندگی قلم و کتاب سے وابستہ رہی۔ یہ ادبی شخصیات کے شخصی خاکوں پر مبنی ان کی دوسری کتاب ہے۔ پڑھیں گے تو حمید اخبر، سجاد نقوی، شفقت تنویر مرزا کے علاوہ اور بہت سی ادبی شخصیات کے بارے میں جانیں گے۔ پڑھیں جناب۔
ناطق کے اس افسانوی مجموعے کی کہانیاں زندگی کی رونقیں اورایسے درد و غم کی داستانیں ہیں کہ جنہیں جمع کیا تو چودہ افسانوں کی کتاب مرتب ہو گئی۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جن کی اکثریت بس زندگی کے چوراہوں پر جوان اور بوڑھی ہوجاتی ہیں مگر کوئی نہیں پڑھ پاتا۔ آپ تو مگر پڑھیے ناں۔