پڑھیے شہریار اور درشہور کی محبت کے بہت ہی دلچسپ کیمیا کی کہانی جو جاگیرداری نظام کے معاشرت کے آس پاس بُنی گئی ہے۔ سردار وقار کا کردار آپ کو بالخصوص یاد رہے گا۔ باقی کرداروں کی نفسیاتی بُنت اور اٹھان آپ کو اس کتاب کے ساتھ مسلسل جوڑے رکھی گی اور آپ اسے بھولیں گے نہیں۔ یہ ہر لحاظ سے اک بڑا ناول ہے۔
پڑھیے شہریار اور درشہور کی محبت کے بہت ہی دلچسپ کیمیا کی کہانی جو جاگیرداری نظام کے معاشرت کے آس پاس بُنی گئی ہے۔ سردار وقار کا کردار آپ کو بالخصوص یاد رہے گا۔ باقی کرداروں کی نفسیاتی بُنت اور اٹھان آپ کو اس کتاب کے ساتھ مسلسل جوڑے رکھی گی اور آپ اسے بھولیں گے نہیں۔ یہ ہر لحاظ سے اک بڑا ناول ہے۔
درخت زندہ ہوتے ہیں، یہ ہم سب جانتے ہیں۔ درختوں سے کیا باتیں کی جا سکتی ہیں، یہ اسد سلیم شیخ صاحب ہم سے کہیں بہتر جانتے ہیں۔ اپنے خطے کے ان درختوں کے بارے میں اک فرسٹ پرسن گفتگو پڑھیے جو آپ کو اپنے بچپن کے مناظر اور یادوں میں لے جائیں گی۔ ہمارے علاقوں کے یہ درخت ہم سے روٹھ رہے ہیں۔ انہیں منا لیجیے!
یہ نیلوفر اقبال کے افسانوں پر مبنی تیسری کتاب ہے اور وہ عام علامتوں میں سے کہانی کشید کرنے کا شاندار ہنر رکھتی ہیں۔- اپنی تحاریر کی روایت کے عین مطابق، ان کی یہ کتاب بھی وہ کہانیاں بیان کرتی ہے جنہیں پڑھتے ہوئے قاری ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ وہ 1989 سے افسانہ نویس ہیں۔ شاندار کتاب ہے۔ پڑھیے جناب۔
نیر مسعود صاحب کا قلم ہو اور بیان ہو میر انیس کا، تو فن مرثیہ نگاری سے شغف رکھنے والوں کو یہ کتاب کیونکر نہیں بھائے گی؟ مرثیہ نگاری ہی نہیں، انیس بڑے پائے و مقام کے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے شاندار تخلیقات کیں اور اردو ادب پر ان کا احسان تاقیامت رہےگا۔ ہر اردو پڑھنے والے کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے جناب۔
یہ چوتھے خلیفہ المسلمین، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں ہیں۔ یہ ان کی زندگی کے تجربات پر مبنی وہ باتیں ہیں جو آپ کو اپنی ہر مشکل گھڑی میں حوصلہ دیں گی؛ کام آئیں گی۔ اسے پڑھیے اور اپنے گھر کی زینت بنائیے۔
آہا؛ یہ وہ تحاریر ہیں جو آپ کو ماضی میں دفن ان گنت یادوں، لوگوں اور تاریخ سے اک بار پھر متعارف کروا دتیی ہیں۔ آپ شاہد صدیقی کی اس کتاب میں بھنبھور جاتے ہییں، ٹیکسلا کو پھر سے جانتے ہیں، قلعہ روہتاس کو چھانتے ہیں، دریائے سندھ اور بدھسٹ سلطنت، ہنڈ کو بھی پڑھتے ہیں۔ یہ شاندار پڑھنے والی کتاب ہے جناب۔
سلمیٰ اعوان کے نام سے اردو ادب پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔ یہ ان کا ناول ہے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے سماجی، معاشرتی اور انسانی واقعات پر بنیاد کرتا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت مارشل لا دور میں بہت مشکل سے ممکن ہو پائی تھی۔ یہ ان کی باقی کتابوں کی مانند، بہت پڑھنے والی کتاب ہے۔ پڑھیے دوست۔
مخمور جالندھری مرحوم نے میخائیل شولوخوف کے اس نوبل انعام یافتہ ناول کا ترجمہ کر کے اس اردو زبان میں بھی لازوال بنا دیا۔ اس ناول میں بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں کے رُوس کی ثقافت و معاشرت اور اجتماعی و انفرادی نفسیات کا بےمثال فن کارانہ بیان ہے۔ پڑھیں گے تو یہ ناول آپ کی یاداشت کا حصہ بن جائے گا۔
اے حمید کا نام کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ شاندار مصنف تھے اور اردو ادب کو بےشمار تخلیقات دے گئے۔ یہ کتاب آپ کے پاس پرانے لاہور اور لاہوریوں کی خوشبو لے کر آتی ہے۔ اس کتاب میں جہاں اے حمید کے ذاتی جذبات شامل ہیں، وہیں جانی پہچانی شخصیات کے تعارف بھی۔ لاہور سے محبت کیجیے۔ پڑھیے۔ یاد رکھیں گے۔
مولانا وحید الدین اختصار کے ساتھ پیچیدہ معاملات کو بیان کرنے کے بادشاہ ہیں۔ ان کی نظر تاریخ، اور بالخصوص اسلام سے جڑے ہوئے معاملات کی تاریخ پر بہت گہری تھی۔ ان کی تحاریر صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے آسانیاں بانٹتی نظر آتی ہیں۔ انہیں پڑھا کیجیے بہت فائدہ میں رہیں گے!
زمان کی کہانی پڑھیے جو آپ ک زمان و مکاں کے گھمن گھیریوں میں لے جاتی ہے۔ زمان جو ماہ نور کے عشق میں گرفتار ہو کر نور آباد چلا آتا ہے اور وہاں اک پہاڑی سے دل لگا بیٹھتا ہے۔ یہ وہ ناول ہے جو آپ پر بیانیے اور تخیل کی پرتوں پر پرتیں کھولتا ہی چلا جاتا ہے، رکتا نہیں۔ اختر رضا سلیمی کمال لکھتے ہیں۔
جین نام کی اک یتیم لڑکی سے ملیے جس کی زندگی مشکلات سے اٹی پڑی ہے، مگر اسے اپنی قدر و قمیت اور ذہانت کا ادراک بھی ہے۔ وہ جبر اور ناانصافی کے سامنے ڈٹ جانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اپنے نظریات و جذبات کے مابین مشکل فیصلے بھی کر گزرتی ہے۔ سیف الدین حسام کا شاندار ترجمہ اور ہر کسی کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔
ناطق نثرنگار تو شاندار ہیں ہی، شاعری بھی خوب کرتے ہیں۔ شاعری تو ویسے بھی نازل ہونے والی صنف ہے تو اسی عدسہ سے آپ ناطق کی نثر کو بھی جان سکتے ہیں۔ خوبصورت باتوں اور جذبات کی عکاس کتاب جس میں مختصر اور تھوڑا طویل بیان آپ کو مسحور رکھے گا۔ پڑھیے اور جھولا لیجیے۔
اس کتاب میں ایڈورڈ ڈی بونو ہمیں مختلف فیصلوں اور منصوبوں کے شعوری جائزہ لینے کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں۔ پڑھنے پر آپ جانیے گا کہ زندگی کے معاملات کی اصل اہمیت سے آگاہی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے تاکہ وقت اور کوشش کے ضیاع سے بچا جا سکے۔ حامد رانا نے بہت دلجمعی سے اس کا بہترین ترجمہ کیا ہے۔ پڑھیے۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"