یہ انور مسعود کی کتاب ہے۔ اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ پڑھنے والوں کو یہ بتانا بھی ضروری نہیں کہ وہ کون ہیں۔ اس لیے کہ وہ انور مسعود ہیں۔ پڑھیے اور ان کے تخیل کی لطافت کے ہلکورے لیجیے۔
یہ انور مسعود کی کتاب ہے۔ اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ پڑھنے والوں کو یہ بتانا بھی ضروری نہیں کہ وہ کون ہیں۔ اس لیے کہ وہ انور مسعود ہیں۔ پڑھیے اور ان کے تخیل کی لطافت کے ہلکورے لیجیے۔
شیخ سعدی برصغیر پاک و ہند اور ایران و ترکی کے ساتھ ساتھ ہر اس خطے کی لوک رہتل کے دانشور ہیں جہاں افراد زندگی کے مطالب و مقاصد کے بارے میں جاننے کی لگن رکھتے ہیں۔ محمد مغفور الحق صاحب نے ان کی چنیدہ حکایات آپ کے لیے پیش کی ہیں۔ لازم ہے کہ آپ بھی انہیں پڑھیں!
ارشد چہال نے اردو میں اک بہت منفرد موضوع پر قلم اٹھایا ہے: آب و ہوا۔ آپ کو پاکستان کے سرسبز علاقوں میں معاشرت، سرکار، طاقتور مافیا، بےبس عوام اور وہاں جاری معاشی طاقت کے حصول کے وہی متفرقات پڑھنے کو ملیں گے جو ہمارے وطن کا بدقسمتی سے خاصہ بن چکے ہیں۔ یہ بہت منفرد کتاب ہے۔ پڑھیے جناب۔
یہ کتاب جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی کی تاریخ کا تجزیہ پیش کرتی ہے اور اس دعوے کی تحقیق کرتی ہے کہ آیا ان واقعات کی صحت و سچائی کیا ہے۔ مغربی دنیا میں ہالوکاسٹ پر بات کرنا عموما ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ پڑھنے پر، قاری تاریخ کے اس اہم مبینہ واقعہ پر معلومات حاصل کر سکیں گے۔
محمد الیاس کے افسانوں کی کتاب ہے۔ وہ اک طویل عرصے سے اپنے مشاہدات، تجربات اور اس مٹی کے ساتھ جڑے ہوئے اپنے اور دوسروں کے دکھوں کی کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔ یہ کتاب بھی آپ کا دل گداز کرنے والی ہے۔ پڑھیے دوست اور ان کے بیان میں موجود اداسی کو دل سے محسوس کیجیے۔
مولانا وحید الدین خان اختصار کے ساتھ زندگی کے فلسفے بیان کرنے میں کمال رکھتے تھے۔ 2021 میں اپنے ابدی سفر کو روانہ ہو گئے۔ ان کی اپروچ اور ان کی کتب، انہیں ہمارے درمیان ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ پیپر بیک ایڈیشن میں پڑھیے اور زندگی کے مسائل کو طریقے سے ہینڈل کرنے کا سیکھیے۔
یہ آقا محمدﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور خاتونِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں ہیں۔ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی ملکہ اور کربلا کے سردار کی والدہ کی باتیں ہیں۔ پڑھیے۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
یہ کراچی کے بدن سے بہتے ہوئے پاکستان کے خون کی کہانی ہے جس میں بیان کیے گئے تمام واقعات سچ ہیں۔ یہ اک قوم پرست جماعت کے لسانی جماعت بننے تک کی تاریخی دستاویز ہے جو کراچی کی اک عام سی عورت، نوشابہ، کی ڈائری کے ذریعے بیان کی گئی ہے۔ عثمان جامعی کی شاندار تخلیق ہے۔ لازمی پڑھنے والی کتاب ہے دوستو۔
بھیشم ساہنی بھارت کے شاندار لکھاری اور سوشلسٹ رہنما تھے۔ وہ راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور بٹوارے کی دکھ ساری عمر اپنے دل پر لیے چلتے رہے۔ یہ کتاب آپ کو 1947 کے فسادات کے چند کرداروں کی کہانیاں سناتی ہے جو اک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ ناول کا علاقہ، راولپنڈی ہی ہے۔ تاریخی مگر دکھی کردینے والی کتاب ہے۔
یہ مختصر کتاب اختر حامد خاں کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں وہ اپنے ذاتی اور لوگوں کے ساتھ اپنے تجربات اور سبق شئیر کرتے ہیں۔ کتاب کے آخری تین چار صفحات آپ کو بہت چونکا دیں گے کیونکہ یہ ان کی زندگی کا سبق ہیں۔ وہ 1921 میں پیدا ہوئے اور یہ کتاب 2000 میں چھپی۔ پڑھیے اور ان کے تجربہ سے سیکھیے دوست۔
شاہد صدیقی صاحب پاکستانی صحافت کے جانے پہچانے نام ہیں۔ یہ ان کے مضامین پر مبنی کتاب ہے جو آپ کو ان کے صحافیانہ سفر پر اپنے ساتھ لیے جائے گی۔ یہ ان کے ان حالات کے مشاہدات بھی ہیں جو انہوں نے خود پر بیتے ہوئے محسوس کیے یا ان میں سے گزرے۔ پڑھنے والوں کے لیے تحفہ ہے یہ کتاب۔
اردو ادب میں سماج میں عورت کے مقام کے حوالے سے پراپر بغاوت کرنے والی اولین لکھاریوں میں سے ایک عصمت چغتائی بھی ہیں۔ وہ اپنے زمان و مکاں کے حوالے سے بہت دلیری سے بہت کچھ تحریر کر گئیں۔ یہ ان کی شخصیت کا تو عکس ہے ہی، ہمارے سماج میں عورت کی کہانیاں بھی ہیں۔ پڑھیے جناب۔
اپنے وطن، شہر، قصبے اور گاؤں سے بچھڑے ہر شخص کے دل کی آواز ہے یہ کتاب۔ کہتے ہیں کہ اس کتاب کی کوئی صنف نہیں، مگر اس کتاب میں آپ کو بہت ساری اصناف اک دوسرے سے باہم مربوط مل جائیں گی۔ اپنی مٹی، ماں، زبان اور گلی محلوں سے محبت اور ان کی یاد رکھنے والے ہر شخص کو یہ کتاب پڑھنا چاہیے۔
یہ اک لڑکی، یوجین کی کہانی ہے جو برسوں اپنے گاؤں میں اپنے محبوب کا انتظار کرتی ہے۔ کڑوی باتیں برداشت کرتی ہے۔ سات برس بعد جب انتظار ختم ہوا تو ایک سانحہ یوجین کا منتظر تھی۔اس میں آپ کو فرانسیسی معاشرے کے ہر طرح کے کردار ملیں گے۔ رؤف کلاسرا نے ترجمہ کر کے اردو میں بھی بالزاک کو امر کر دیا۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"