فیروز مکر جی کا فن پاکستان میں زیادہ نہیں جانا جاتا۔ وہ لندن میں رہتی ہیں، مگر ان کا دل برصغیر پاک و ہند کی عورت کے ساتھ ہی دھڑکتا ہے۔ ان کی یہ کتاب نہ صرف آپ کو جنوبی ایشائی خطے، بلکہ وہ جہاں رہتی ہیں، وہاں کے انسانوں کی کہانیاں بھی سناتا ہے۔ یہ دلچسپ اور پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ پڑھیے دوست۔
فیروز مکر جی کا فن پاکستان میں زیادہ نہیں جانا جاتا۔ وہ لندن میں رہتی ہیں، مگر ان کا دل برصغیر پاک و ہند کی عورت کے ساتھ ہی دھڑکتا ہے۔ ان کی یہ کتاب نہ صرف آپ کو جنوبی ایشائی خطے، بلکہ وہ جہاں رہتی ہیں، وہاں کے انسانوں کی کہانیاں بھی سناتا ہے۔ یہ دلچسپ اور پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ پڑھیے دوست۔
پڑھیے اور شاکے، کاشی، مبشر اور زفیرہ کے کرداروں کو جانیے۔ یہ مختلف سوشل اور اکنامک کلاسز کی سٹرگلز اور ان کے مابین کشمکش کی وجہ سے جنم لینے والی کہانی ہے جس کے عکس ہمیں اپنے معاشرے میں ملتے رہتے ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے یہ اک بولڈ ناول ہے، مگر آپ کو یاد بھی رہے گا جناب۔
منشی پریم چند نے سادہ زندگی بسر کی اور ویسی ہی تحاریر بھی اپنے قارئین تک لاتے رہے۔ انہیں بہت سادگی سے زندگی کی پیچیدگیوں پر تبصرہ کر دینے کا کمال حاصل تھا۔ ان کے تقریبا تمام شہرہ آفاق افسانے اس کتاب کا حصہ ہیں۔ آرڈر کیجیے اور پڑھیے جناب۔
یہ آقا محمدﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور خاتونِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں ہیں۔ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی ملکہ اور کربلا کے سردار کی والدہ کی باتیں ہیں۔ پڑھیے۔
یہ فیودور دستوئیفسکی کا آخری ناول ہے جسے دُنیا کے ہر نقاد نے عظیم ترین ناولوں میں شمارکیا۔ ناول کا ہیرو الیوشا روسی قومیت اور مذہبیت کی اعلیٰ ترین پیداوار ہے اور اسے اپنی سرزمین اور ماحول سے بہت گہرا اور سچا لگاؤ ہے۔ اردو میں اسے شاہد حمید صاحب نے امر کر دیا۔ روسی ادب کا لیجنڈ ہے؛ پڑھیے جناب۔
ٹیگور عظیم لکھاری تھے۔ وہ صرف فکشن رائٹر ہی نہ تھے۔ ان کی دیگر موضوعات بشمول سماج، تاریخ اور انسانی معاشرت کے ارتقاء پر بھی گہری نظر تھی۔ وہ بہت گہرے اور صاحب علم شخص تھے۔ یہ تو محض ان کی شخصیت کا اک چھوٹا سا عکس ہے جو ہم آپ کے لیے لائے ہیں۔ پڑھیے جناب۔
مسعود مفتی کبھی سرکاری افسر تھے۔ انہوں نے اپنی ملازمت اور پاکستانی تاریخ کے مشاہدات کو ہی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا اور "زندہ تاریخ کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔" وہ بہت دھیمے لہجے میں گہری بات کہنے کے عادی ہیں۔ ان کا اتنا تعارف ہی اس کتاب کے معیار کی دلیل ہو جانا چاہیے۔ نہیں؟ پڑھیں گے تو جانیں گے۔
مسعود مفتی کبھی سرکاری افسر تھے۔ وہ پاکستان کی بنتی بگڑتی تاریخ کے شاہد ہیں اور عین انہی مشاہدات کو انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے خود ان کے بقول "زندہ تاریخ کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔" کتاب کا انتساب "اس پاکستان کے نام جو ٹوٹ رہا تھا" ہے۔ پڑھیے گا نہیں کیا جناب؟
آپ اردو افسانے پڑھتے ہوں اور غلام عباس صاحب کے نام سے واقف نہ ہوں، یہ ممکن ہی نہیں! یہ کتاب ان کے شاہکار افسانوں کا مجموعہ ہے اور اپنی روایت کے عین مطابق، وہ آپ کو دھیمے لہجے اور دھیمے سروں میں معاشرتی سچائیوں اور ان سے جڑے تضادات کی بھول بھلیوں میں لیے چلتے ہیں۔ پڑھیں اور ان کے ساتھ چلیں ناں جناب۔
پڑھیے رؤف کلاسرہ کے قلم سے پاکستانی سیاست کے مرکزی کرداروں کے بارے میں اور پاکستانی سیاست کے بارے میں بھی کہ درون خانہ یہ کیسے چلتی ہے۔ چوہدری شجاعت، جنرل علی قلی خان، آفتاب احمد شیرپاؤ، آصف علی زرداری اور بہت سے دیگر سیاسی کرداروں کے بارے میں جانیے۔ پڑھنے والی کتاب ہے جناب۔
تصوف کو عمومی اور اسلامی تصوف کو خصوصی طور پر سمجھنے اور جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی دہریت کے تشکک سے ایمان کے تیقن تک آنے والے بلند پایہ سکالر تھے اور انہوں نے اپنی زندگی صرف مذہبی ہی نہیں، سماجی و معاشرتی علوم کے لیے وقف کیے رکھی۔ شاندار کتاب ہے جناب۔
اے حمید کا نام کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ شاندار مصنف تھے اور اردو ادب کو بےشمار تخلیقات دے گئے۔ یہ کتاب آپ کے پاس پرانے لاہور اور لاہوریوں کی خوشبو لے کر آتی ہے۔ اس کتاب میں جہاں اے حمید کے ذاتی جذبات شامل ہیں، وہیں جانی پہچانی شخصیات کے تعارف بھی۔ لاہور سے محبت کیجیے۔ پڑھیے۔ یاد رکھیں گے۔
ارشد محمود پاکستان کے ترقی پسند دانشور ہیں اور اپنی اس کتاب میں پاکستانی معاشرے میں موجود مختلف قسموں کی گھٹن کا اک بےلاگ تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ ہمارے معاشرے میں موجود گھٹن کو مختلف سائنسی اور تاریخی حوالہ جات سے اپروچ اور بیان کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کے رویوں کو سمجھنے کے لیے بہت عمدہ پڑھائی ہے۔
ارے بھئی محمد خالد اختر کے نام سے کون سا ایسا اردو پڑھنے والا ہے جو واقف نہیں؟ سادہ اور رواں زبان کے استعمال میں ان کا اپنا اک مقام ہے۔ یہ ان کے دس مختصر سفر نامے ہیں۔ لکھاری جب سفر کرتا ہے، تو وہ صرف جگہیں ہی نہیں دیکھتا۔ وہ انسان و معاشروں کی کہانیاں بھی دیکھتا، اور لکھتا ہے۔ پڑھیے جناب۔