بھارتی مصنف، ذکیہ مشہدی کا فوکس عورت، معاشرہ، لوگ، رسوم و رواج اور ان کے تال میل سے پیدا ہونے والی کہانیاں ہیں۔ یہ ان کی کہانیوں کا مجموعہ ہے جس میں وہ آپ کو بھارت میں مسلم معاشرت کی بُنت میں لیے جاتی ہیں اور آپ کو وہاں کی معاشرت اور اس میں بسے لوگوں کا تعارف کرواتی ہیں۔ پڑھنے والی عمدہ کتاب ہے۔
بھارتی مصنف، ذکیہ مشہدی کا فوکس عورت، معاشرہ، لوگ، رسوم و رواج اور ان کے تال میل سے پیدا ہونے والی کہانیاں ہیں۔ یہ ان کی کہانیوں کا مجموعہ ہے جس میں وہ آپ کو بھارت میں مسلم معاشرت کی بُنت میں لیے جاتی ہیں اور آپ کو وہاں کی معاشرت اور اس میں بسے لوگوں کا تعارف کرواتی ہیں۔ پڑھنے والی عمدہ کتاب ہے۔
یہ مختصر کتاب منٹو کے مطالعے کو ایک نیا رُخ عطا کرتی ہے۔ مصنف نے منٹو کی بات کو آج کے افسانے کے درمیان لا کر رکھ دیا ہے۔ یہ منٹو کے حوالے سے محض اک اور کتاب نہیں، بلکہ اس کے وسیلے سے منٹو فہمی کا ایک نیا دریچہ کھلتا ہے۔ پڑھیے اور منٹو کے فن، اس کے متن کو جانیے، سمجھیے۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
شیخ سعدی برصغیر پاک و ہند اور ایران و ترکی کے ساتھ ساتھ ہر اس خطے کی لوک رہتل کے دانشور ہیں جہاں افراد زندگی کے مطالب و مقاصد کے بارے میں جاننے کی لگن رکھتے ہیں۔ محمد مغفور الحق صاحب نے ان کی چنیدہ حکایات آپ کے لیے پیش کی ہیں۔ لازم ہے کہ آپ بھی انہیں پڑھیں!
گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے محمد عاطف علیم برصغیر پاک و ہند کے نسل در نسل پسے ہوئے طبقات کی آواز ہیں۔ وہ محبت بہت کم لکھ پاتے ہیں۔ وہ تلخیاں ہی بیان کرتے ہیں، سچی اور زندگی میں بپا رہنے والی تلخیاں۔ یہ کتاب آپ کو عین انہی طبقات کی آواز محسوس ہو گی۔ پڑھیے دوست۔
ارشد محمود پاکستان کے ترقی پسند دانشور ہیں اور اپنی اس کتاب میں پاکستانی معاشرے میں موجود مختلف قسموں کی گھٹن کا اک بےلاگ تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ ہمارے معاشرے میں موجود گھٹن کو مختلف سائنسی اور تاریخی حوالہ جات سے اپروچ اور بیان کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کے رویوں کو سمجھنے کے لیے بہت عمدہ پڑھائی ہے۔
احمد بشیر مرحوم کی صاحبزادی، نیلم احمد بشیر کا اپنا بیان عین اپنے والد کے اسلوب پر ہے: سیدھا اور سچا۔ وہ اپنے واقعات و مشاہدات کو کہانی میں ڈھالنے کا فن جانتی ہیں اور یہ تو آپ کو ان کی کتابیں پڑھ کر ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ یہ ابھی ان کے افسانوں کی کتاب ہے۔ پڑھیے گا تو ہی لطف اٹھائے گا۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
اس ناول میں محمد الیاس پاکستانی معاشرے میں موجود جاگیردارنہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے بینییفشریز کے اس گٹھ جوڑ پر تبصرہ کرتے ہیں جس میں یہ دونوں طبقات عوام کی اکثریت کو مختلف طریقوں اور طاقتوں سے دبائے رکھتے ہیں۔ یہ برصغیر پاک و ہند کے دبے ہوئے طبقات کے حالات کا بیان ہے۔ کھلے دل سے پڑھیے، لازمی۔
اس کتاب میں صرف امرتا کا ہی شاندار بیان اس ناول کی صورت میں موجود نہیں۔ ا س میں بلراج ورما، راکا سنہا، احمد سلیم کی امرتا سے باتیں اور ان پر بیان ہے۔ خود امرتا نے اس دلگداز اور ایوارڈ یافتہ ناول کا تعارف دیا ہے۔بہت ہی محبت سے بچوں کے نام کی ہے یہ کتاب جو انکے بقول "میری طرح ریاضت کے دکھ نہیں جانتے!"
ماضی کی سیر کرنے کا شوق رکھنے والوں کے لیے کہانیوں اور یادوں کی یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔ ٹائٹل پر بجا لکھا گیا ہے، یہ واقعی وہ تحریریں ہیں جو پرانی نہیں ہوتیں۔ رؤف کلاسرا نے خوب صورت نثر میں خوب صورت یادیں قلم بند کی ہیں۔ پڑھیے گا تو جان جائیے گا کہ عام کہانیاں، کبھی عام نہیں ہوتیں۔
عامر صدیقی کا انتخاب ہو اور پھر ترجمہ بھی انہی کا تو کتاب پڑھنے والی خودبخود بن ہی جاتی ہے۔ یہ سندھی شہروں، قصبوں اور دیہاتی لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ یہ وہ عام کہانیاں ہیں جن میں سے بہت ساری شاید ہم پر خود بھی کبھی بیتی ہونگی۔ یہ پڑھنے والی دلچسپ کہانیاں آپ کو سندھ لیے چلیں گی؛ چلیں گے؟
عباس زیدی نے کمال ناول تحریر کیا اور پھر عامر حسینی نے ترجمہ کرنے کا بھرپور حق ادا کر ڈالا۔ ظالم و مظلوم کے جاری ابدی کشمکش کا بیان ہے جو کربلا کے واقعہ سے شروع ہوتا ہے اور دور جدید میں مدیر کے نام اک خط، پولیس کی ایف آئی آر اور رپورٹ پر ہوتا ہے۔ سیاست و معاشرت موضوع ہے، لازمی پڑھیے۔ یاد رکھیں گے۔
دینہ میں پیدا ہونے والے سمپورن سنگھ کالرا سے کون واقف نہیں جو اردو کو نجانے کب سے "گلزار" بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے کسی تعارف کی کوئی ضرورت بھی ہے بھلا؟ پڑھیں گے تو ان کی نثری شاعری اور شاعرانہ نثر کے جادو اور نشے میں جھومتے رہیں گے۔ یہ پکا وعدہ ہے جناب۔
اس ناول کی تعریف کرتے ہوئے قرۃ العین حیدر نے کہا تھا کہ "قاضی عبدالستار سے بہتر، صرف قاضی عبدالستار ہی لکھ سکتے ہیں۔" سات زبانوں میں ترجمہ شدہ یہ کتاب دیہاتی سماج کے کرداروں کی پُرپیچ کہانیوں میں آپ کو ساتھ ساتھ لیے چلتی ہے۔ دیہاتی زندگی پر لکھنے کے لیے اس کتاب کو اردو ادب میں سند مانا جاتا ہے۔
یہ شاندار ناول جنوبی پنجاب کی تاریخ و ثقافت کو انگریزوں کے دور میں سے نکال کر آپ کے سامنے پیش کر دے گا۔ یہ 18ویں صدی کے اس واقعے پر بنیاد کرتا ہے جب دریائے ستلج پر پل تعمیر ہونا تھا۔ آدم واہن کے قدیمی گاؤں میں آپ کو محبت، رقابت، ہوس اور مذہبی و معاشرتی استحصال کی کئی تصاویر ملیں گی۔ پڑھیے جناب۔
اجمل کمال، کمال کے ادب دوست شخص ہیں۔ یہ ان کا کیا ہوا ترجمہ ہے جس کے اصل لکھاری کوشلیہ کمارسنگھے، سری لنکن ہیں۔ مختصر مگر بہت دلچسپ ناول ایک ہفتے کے بیان پر مشتمل ہے جو اس ناول کے کئی کرداروں سے پیش آتے ہیں۔ یہ سری لنکن نہیں، جنوبی ایشائی کہانی ہے۔ یہ ہم سب کی کہانی ہے۔ پڑھیے دوست۔ لازما۔