جنگ، تشدد، قتل و غارتگری، بڑی طاقتوں کے غاصبانہ قبضے کے ملغوبے نے عراقی معاشرے کو کیسے کیسے زخم دیے اور وہاں بسنے والوں کو کسی ان-چاہی بربادی میں دھکیلا، یہ کتاب آپ کو اس کا تعارف فراہم کرے گی۔ حسن بلاسم نے حقیقی انسانی دکھ لکھے۔ ارجمند آرا نے شاندار ترجمہ کیا آپ کے لیے۔ پڑھیے ناں دوست۔
جنگ، تشدد، قتل و غارتگری، بڑی طاقتوں کے غاصبانہ قبضے کے ملغوبے نے عراقی معاشرے کو کیسے کیسے زخم دیے اور وہاں بسنے والوں کو کسی ان-چاہی بربادی میں دھکیلا، یہ کتاب آپ کو اس کا تعارف فراہم کرے گی۔ حسن بلاسم نے حقیقی انسانی دکھ لکھے۔ ارجمند آرا نے شاندار ترجمہ کیا آپ کے لیے۔ پڑھیے ناں دوست۔
بقول صفدر میر، یونس جاوید نے اپنی تحاریر میں معاشرے کے تضادات کے درست پس منظر کی نشان دہی کی ہے اور وہ عموما معاشرے میں موجود انہی تضادات کے پیدا کردہ المیوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ یونس جاوید کے افسانے پڑھنے والا ان کی مشاہدے کی حساسیت کا گواہ ہوتا ہے۔ آپ بھی بن جائیے۔
نیر مسعود کے قیمتی افسانے ہوں تو آپ کیوں نہیں پڑھیں گے بھلا؟ اس چھوٹی سی کتاب میں ان کے آٹھ چنیدہ افسانے ہیں اور وہ اپنے اسی طریق سے آپ کو اپنے مشاہدات اور اظہار کے سفر میں شریک کرتے ہیں، جو ان کا خاصہ ہے۔ یہ کتاب آپ کو بہت عمدہ کمپنی فراہم کرے گی، مگر آہ؛ کہ ایک ہی نشست کی کتاب ہے!
ابھی اردو پڑھنے والے جمیل عباسی کے نام سے زیادہ واقف نہیں۔ ہمارا مفت مشورہ ہے کہ ان پر نظر رکھیے۔ وہ تارڑ کے اسلوب پر ہیں۔ لکھتے رہیں گے تو شاندار نام کمائیں گے۔ سندھ کے دیہی علاقے سے ہیں اور تو عین انہی علاقوں کے انسانوں کی نمائندگی کرتی تحاریر آپ کے لیے لائے ہیں۔ سندھ پڑھیے، سندھ والوں کو پڑھیے۔
ٹیپو سلطان شہید کے والد صاحب کے بارے میں پڑھیے کہ انہوں نے کیسے اپنی قابلیت و انتظام سے میسور کو اک مثالی اور شاندار ریاست بنا ڈالا۔ ان کی سیاست، حکمت، تدبر، فتوحات اور سفارت کے بارے میں جانیے۔ یہ کتاب آپ کو اک عرصہ یاد رہے گی ،دوست۔
پالو کوہیلو کا شاندار ناول اور پھر فہیم احمد صابری صاحب کا بہترین ترجمہ۔ انسانی زندگی کی کہانی جہاں اک شخص کو سوئٹزرلینڈ میں برازیل کی اک طوائف سے محبت ہو جاتی ہے۔ کتاب میں بہت سے صفحات ایسے ہیں جہاں آپ لکھا ہوا جادو پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ پالو کوہیلو کو مس نہ کیا کیجیے۔ کبھی بھی۔
مسعود مفتی بیوروکریٹ رہے اور افسانہ نویسی کے ساتھ ساتھ پاکستانی سیاست پر بھی قلم اٹھاتے رہے۔ یہ کتاب مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کی کہانی ہے جس میں حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے اہم حصے بھی نقل کیے گئے ہیں۔ سیاست و تاریخ کے شوقین، ہر پاکستانی کو یہ کتاب لازما پڑھنی چاہیے۔
ملیے سلطان محمد تغلق سے جو برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے اک فاتح بادشاہ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے جہاں بہت ساری فتوحات کیں، وہیں بہت ساری تعمیرات بھی کروائیں۔ ان کی شخصیت ہماری علاقائی تاریخ کا اک دلچسپ باب ہے۔ تاریخ کے طالبعلموں کو پڑھتے ہوئے یہ کتاب بہت دلچسپ لگے گی۔
ماضی کی سیر کرنے کا شوق رکھنے والوں کے لیے کہانیوں اور یادوں کی یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔ ٹائٹل پر بجا لکھا گیا ہے، یہ واقعی وہ تحریریں ہیں جو پرانی نہیں ہوتیں۔ رؤف کلاسرا نے خوب صورت نثر میں خوب صورت یادیں قلم بند کی ہیں۔ پڑھیے گا تو جان جائیے گا کہ عام کہانیاں، کبھی عام نہیں ہوتیں۔
قونیہ کے رومی سے دنیا کے ہر کونے کے لوگ محبت کرتے ہیں اور صدیوں سے ان کی حکایات، اشعار اور کلام تمام مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں کو مبہوت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ آپ نے اگر یہ کتاب رومی کے حوالے سے نہیں پڑھی، تو پڑھیے۔ رومی کو جانیے۔ جانیں گے، تو مانیں کے!
مسعود مفتی کبھی سرکاری افسر تھے۔ وہ پاکستان کی بنتی بگڑتی تاریخ کے شاہد ہیں اور عین انہی مشاہدات کو انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے خود ان کے بقول "زندہ تاریخ کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔" کتاب کا انتساب "اس پاکستان کے نام جو ٹوٹ رہا تھا" ہے۔ پڑھیے گا نہیں کیا جناب؟
احمد بشیر پاکستان کے بہت سچے کھرے اور صاف گو صحافی اور لکھاری تھے۔ یہ ان کی زندگی کے حقیقی واقعات اور کرداروں کا بیان کردہ ناول ہے۔ یہ ناول آپ کو پاکستانی تاریخ سے بہت دلچسپ انداز میں متعارف بھی کروائے گا اور آپ کو کئی مقامات پر ہلا بھی دے گا۔ سچ ایسا ہی کرتا ہے۔ یہ آپ کو لازما پڑھنا چاہیے جناب۔
دینہ میں پیدا ہونے والے سمپورن سنگھ کالرا سے کون واقف نہیں جو اردو کو نجانے کب سے "گلزار" بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے کسی تعارف کی کوئی ضرورت بھی ہے بھلا؟ یہ ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کی کتاب ہے۔ پڑھیں گے تو ان کی نثر کے جادو اور نشے میں جھومتے رہیں گے۔
نیر مسعود کا تحفہ قبول کیجیے۔ مرثیہ نگاری و مرثیہ خوانی برصغیر پاک و ہند میں مسلم ثقافت کا لازمی حصہ رہے ہیں اور رہیں گے بھی۔ اس کتاب میں آپ مرثیہ خوانی کے ابتدائی خدوخال جان پائیں گے اور اردو ادب کی شخصیات، میر خلیق، میر انیس اور مرزا دبیر کے فن کی جہتوں سے آشنا ہونگے۔ منفرد موضوع پر منفرد کتاب ہے۔
یہ صرف اپنے ہی وقت کی نہیں، تمام وقتوں کے لیے تحفہ کتاب ہے۔ حنیف رامے مرحوم، اسلام اور اس کی تعلیمیاتِ زندگی کا اک شاندار روحانی پہلو اپنے قاری کے سامنے لاتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ زندگی میں اسلامی روحانی اقدار کیسے اعلیٰ رویے شامل کرتی ہیں۔ یہ کتاب ہر کسی کو پڑھنی چاہیے۔ بہت عمدہ زاویہ دیتی ہے۔
وزیرآغا، مرزا حامد بیگ کو "پیدائشی کہانی کار" کہا کرتے تھے اور وہ غلط نہیں کہتے تھے۔ علامتی، حقیقی اور واقعاتی بیان شاید ہی کسی اور جدید افسانہ نگار نے ایسا بنایا ہو جیسا انہوں نے تخلیق کیا۔ ان کی تمام کتب اپنے مزاج کے پڑھنے والوں کے لیے یادگار تحفہ ہیں۔ آپ بھی پڑھیے جناب۔