سلمیٰ اعوان افسانہ نگاری کی دنیا کا جانا پہچانا نام ہیں۔ وہ خواتین کے حوالے سے بالخصوص مقامی ثقافت میں موجود چیلنجز اور معاملات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بناتی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ، اسی حوالے سے آپ کو دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی خواین کی دنیا میں لیے چلتی ہں۔ پڑھیں گے تو جان جائیں گے۔
سلمیٰ اعوان افسانہ نگاری کی دنیا کا جانا پہچانا نام ہیں۔ وہ خواتین کے حوالے سے بالخصوص مقامی ثقافت میں موجود چیلنجز اور معاملات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بناتی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ، اسی حوالے سے آپ کو دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی خواین کی دنیا میں لیے چلتی ہں۔ پڑھیں گے تو جان جائیں گے۔
یہ بھی نیلم احمد بشیر صاحبہ کے تحریر کردہ شاندار افسانے ہیں اور ان کے ہی سگنیچر بیان میں ہیں۔ زندگی کے حقیقی واقعات کو کہانی کی صورت، اور پھر اک عورت کی نظر سے دیکھتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔ کچھ تلخیاں ہیں تو کچھ اداسیاں، مگر سب کا سب حقیقت۔ انہیں لازما پڑھا کیجیے، جناب۔
راجندر سنگھ بیدی اردو کے کلاسیکی مصنفین میں سے ایک ہیں اور یہ ان کے اک پکے عاشق، مشتاق احمد کی محبت کی محنت ہے۔ یہ کتاب آپ کو راجندر سنگھ بیدی سے ایسے متعارف کروائے گی کہ جیسے آپ نے انہیں پہلے کبھی نہیں جانا ہو گا۔ پڑھیے کہ یہ اردو ادب سے محبت کرنے والے کا تحفہ ہے۔
1947 کی اس تقسیم پر لکھا گیا جس کے نقوش شاید تاقیامت کروڑوں دلوں پر موجود رہیں گے۔ قاری کو چونکا دینے والا۔ یہ ناول آپ کو ان زمان و مکاں میں لے جائے گا جہاں اور جب متحدہ ہندوستان کی کوکھ سے دو آزاد ملک جنم لے رہے تھے۔ انسانی نفسیات پر آپ کو تنقید اور کاٹ پڑھنے کو ملے گی۔
اس دنیا میں جب جب سچ کی بات ہو گی، تب تب سقراط کا تذکرہ ہو گا۔ یونان کے اس عظیم فلسفی کے بارے میں پڑھیے اور جانیے کہ ان کی زندگی کے حالات کیا تھے اور ان کے اختتامی واقعات بھی کیسے رہے۔ یہ صرف تاریخ ہی نہیں، خود کی بہتری کرنے کی بھی شاندار کتاب ہے۔ لازمی پڑھی جانی چاہیے۔
یہ ایوان ترگنیف کا عالمی شہرت یافتہ شاہکار ہے جو 1862 میں چھپا۔ یہ اپنے وقت کی نوجوان نسل کی نمائندگی کرتا ادبی شہ پارہ ہے اور روسی ادب کا پہلا جدید ناول سمجھا جاتا ہے۔ ناول کا سارا پلاٹ صرف دو ماہ پر محیط ہے۔ انور عظیم کا ترجمہ کردہ یہ شاہکار لازمی پڑھیے اور ہر دور کی بدلتی نسل کا کیمیا جان جائیے۔
یہ خشونت سنگھ کا اوریجنل ناول ہے جس کا اتنا ہی شاندار اردو ترجمہ مسعود منور نے کیا۔ تقسیم ہند کے وقت یہ اک محبت کرنے والے جوڑے کی کہانی ہے جس کے آس پاس آپ کو معاشرے کے بہت سارے دیگر کردار بھی ملیں گے۔ پڑھنے پر آپ سوچیں گے کہ تب سے اب تک، بدلا کیا ہے؟ ابدال بیلا نے اسی نام سے حصہ دوم تحریر کیا ہے۔
آپ کو اردو میں ایسی کتب بہت کم پڑھنے کو ملتی ہونگی جو مظہر سعید قریشی صاحب نے آپ کے لیے تحریر کر دی ہے۔ یہ ان کے ذاتی مشاہدات و تجربات کی تحاریر ہیں جو ان کے ساتھ بیت جانے والے مافوق الفطرت اور ماورائے عقل واقعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ یہ پڑھیے کہ ایسی تحاریر اردو میں بہت کم لکھی گئی ہیں۔
باری علیگ مرحوم بہت جلد اس دنیا سے چلے گئے۔ وہ بہت شاندار لکھاری اور محقق تھے۔ وہ اردو زبان کو بہت سے تحفے، اپنی بہت مختصر عمر میں ہی دے گئے۔ یہ ان کی اسلامی اور مسلم تاریخ پر اک بہت دلچسپ اور بہت تیزی سے پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ پڑھیے اور تاریخ کے ساتھ ساتھ اس سے جڑے معاشرتی معاملات کو بھی جانیے گا۔
دوستو، اجمل کمال جب بھی اور جو بھی پیش کیا کریں، آپ فورا سے پہلے اور آنکھیں بند کر کے اسے اپنی لائبریری کا حصہ بنا لیا کیجیے اجمل صاحب کی اردو کتب بینی کے فروغ کے لیے بےپناہ خدمات ہیں۔ یہ کتاب بھی ان کی اردو/ہندی اور اس خطے سے محبت کا مونہہ بولتا ثبوت ہے۔ اسم بامسمیٰ ہے تو آپ اس پڑھتے کیوں نہیں؟
کرشن چندر کی نسل کے لکھاریوں کے سینوں پر تقسیم ہند اور اس سے جڑے انسانی المیات کے گہرے زخم تھے۔ ہم وحشی ہیں بھی کرشن چندر کے دوسرے ناول، غدار، کی طرح انہی زمانوں پر اک تکلیف دہ بیان ہے۔ تہذیب کے دعویدار انسانوں کو، جو ان زمانوں میں ہوا، زیب نہیں دیتا تھا۔ پڑھیے دوست۔
لیو ٹالسٹائی انتون چیخوف کو "لاثانی فنکار" کہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ چیخوف کی "تخلیقات سارے عالمِ انسانیت کے لیے ہیں۔" بین الاقوامی ادب میں یہ کہانیاں اس کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ مختصر کہانیاں زندگی کی تجربات اور مشاہدات کے بیان سے بھرپور ہیں۔ سید محمد مہدی کا ترجمہ ہے۔ پڑھنا تو پڑے گا جناب۔
تارڑ صاحب آپ کو کمبیوڈیا لیے چلتے ہیں۔ آپ کو بھی ان کے ساتھ، وہاں جائے بغیر جانے کا اک موقع مل رہا ہے تو آپ جاتے کیوں نہیں؟ پڑھیں اور ان کے ساتھ کمبوڈیا کی تاریخ، معاشرت، لوگوں، ثقافت، تاریخی مقامات، رسوم اور رواج کے بارے میں جان جائیں تارڑ صاحب کی کیا ہی بات ہے!
اس کتاب میں ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ممتاز مفتی صاحب کے ان افسانوں کا تجزیہ کیا ہے جو ان کے نزدیک کوئی نہ کوئی روحانی جہت رکھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کتاب کا تعارف لکھتے اور افسانوں کا تجزیہ کرتے "مجھ پر بہت دلچسپ انکشافات ہوئے۔" ممتاز مفتی کو پڑھنے والے، یہ کتاب پڑھ کر ان کی روحانی جہت کو سمجھ سکیں گے۔
دینہ میں پیدا ہونے والے سمپورن سنگھ کالرا سے کون واقف نہیں جو اردو کو نجانے کب سے "گلزار" بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے کسی تعارف کی کوئی ضرورت بھی ہے بھلا؟ پڑھیں گے تو ان کی نثری شاعری اور شاعرانہ نثر کے جادو اور نشے میں جھومتے رہیں گے۔ یہ پکا وعدہ ہے جناب۔
یہ بہت شاندار کتاب ہے اور آپ کو بابا جناح سے اک بہت مختلف انداز میں متعارف کرواتی ہے۔ پروفیشر سعید راشد علیگ نے اسے بہت محنت اور بہت تحقیق کے علاوہ، بہت دل سے بھی تحریر کیا ہے۔ اس میں تاریخ تو ہے ہی، اس میں محبت بھی ہے۔ آپ کو یہ کتاب لازمی پڑھنی چاہیے۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"