شیخ سعدی کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ سرزمینِ ایران سے صدیوں پرانی پھوٹتی دانش کے سرخیل صوفی، بزرگ جو دنیا اور زندگی کے حقیقی امور کو ایسی دلپذیر سچائی سے بیان کرنے کا وصف رکھتے ہیں کہ پڑھنے والا زندگی کی بہت سی ٹھوکروں سے بچ جاتا ہے۔ فہم، ادراک اور شعور: یہ سب سعدی کی پہچان ہیں۔ پڑھیے جناب!
شیخ سعدی کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ سرزمینِ ایران سے صدیوں پرانی پھوٹتی دانش کے سرخیل صوفی، بزرگ جو دنیا اور زندگی کے حقیقی امور کو ایسی دلپذیر سچائی سے بیان کرنے کا وصف رکھتے ہیں کہ پڑھنے والا زندگی کی بہت سی ٹھوکروں سے بچ جاتا ہے۔ فہم، ادراک اور شعور: یہ سب سعدی کی پہچان ہیں۔ پڑھیے جناب!
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
یہ مختصر کتاب اختر حامد خاں کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں وہ اپنے ذاتی اور لوگوں کے ساتھ اپنے تجربات اور سبق شئیر کرتے ہیں۔ کتاب کے آخری تین چار صفحات آپ کو بہت چونکا دیں گے کیونکہ یہ ان کی زندگی کا سبق ہیں۔ وہ 1921 میں پیدا ہوئے اور یہ کتاب 2000 میں چھپی۔ پڑھیے اور ان کے تجربہ سے سیکھیے دوست۔
تارڑ کو پڑھنے والے جان سکتے ہیں کہ یہ ان کی یورپ-گردی کے اولین واقعات پر مشتمل حقیقی واقعاتی بیان ہے۔ تارڑ کی ہی "پیار کا پہلا شہر" کی طرح، یہ اردو ادب میں محبتی ناسٹیلجیا کا بہت ہی شاندار بیان ہے۔ یہ کتاب آپ کو جذبات کے ساتھ ساتھ، انسانی زندگی کے واقعات کی رولر کوسٹر پر لیے چلتی ہے۔ پڑھیے جناب۔
جنگ، تشدد، قتل و غارتگری، بڑی طاقتوں کے غاصبانہ قبضے کے ملغوبے نے عراقی معاشرے کو کیسے کیسے زخم دیے اور وہاں بسنے والوں کو کسی ان-چاہی بربادی میں دھکیلا، یہ کتاب آپ کو اس کا تعارف فراہم کرے گی۔ حسن بلاسم نے حقیقی انسانی دکھ لکھے۔ ارجمند آرا نے شاندار ترجمہ کیا آپ کے لیے۔ پڑھیے ناں دوست۔
یہ کتاب علی سجاد شاہ کی اک سرتوڑ کاوش کہلوائی جا سکتی ہے۔ ذاتی نقصان اور روح کو توڑ دینے والے اک تجربہ کے بعد، علی نے خود کو تخلیقی ایکسپریشن میں گویا غرق کرنے کا جو سفر شروع کیا تھا، یہ اس کا آغاز تھا۔ راکھ ہونے کے بعد، دوبارہ جی اٹھنے کی ضد ہے یہ کتاب۔ پڑھیے اور جانیے، جناب۔
تارڑ کی شاندار "سندھ آوارگی" پڑھیے اور سندھ کے صوبے، لوگ، مقامات اور رسوم و رواج کے بارے میں تفصیل سے جانیے۔ پاکستان میں، بدقسمتی سے، اپنے ہی صوبوں کے بارے میں ایسے سفرنامے بہت کم تحریر کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب آپ کو بالکل اک نیا سندھ متعارف کروا دے گی۔ بیان تو خیر تارڑ کا ویسے ہی کمال کا ہے۔
محمد الیاس پاکستان میں افسانوی اور کہانی کاری کی جدت کے سرخیل ہیں۔ اس کتاب سمیت، انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشرتی تضادات کو ایسے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے کہ قاری ان کے افسانوں اور کہانیوں کے انسانی کرداروں کو ان کی مظلومیت ہی کے رنگ میں دیکھتا ہے۔ یہ عام لوگوں کی بڑی کہانیاں ہیں۔ پڑھیں دوست۔
نیلم احمد بشیر جانی پہچانی افسانہ نویس ہیں۔ ان کے افسانوں کے کرداروں کے بارے میں امجد اسلام امجد لکھ گئے ہیں کہ انہیں پڑھنے کے بعد وہ کردار آپ کو جیتے جاگتے اپنے آس پاس نظر آ جاتے ہیں اور ان کی کہانی ختم ہو کر بھی پڑھنے والے کے لیے ختم نہیں ہوتی۔ ان کی کتب افسانہ پڑھنے والوں کے لیے تحفہ ہیں۔ پڑھیے۔
یہ صدیق عالم کا چوتھا ناول ہے جو 38 گھنٹے کی مدت کا انڈین احوال آپ کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ یہ تیزی سے بدلتے ہوئے انڈین سماج میں معیشت، عدلیہ، فوج، مذہبی جنون، پولیس اور میڈیا پر اک پیچیدہ مگر بہت دلچسپ بیانیہ آپ تک لاتا ہے۔ یہ مختصر ناول آپ اک فہرست میں پڑھ لیں گے کیونکہ یہ بہت دلچسپ ہے۔
سلمیٰ اعوان کے نام سے اردو ادب پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔ یہ ان کے افسانوں کی شاندار کتاب ہے جس میں عام عورتوں کی بہت عام کہانیاں ہیں جو آپ جب پڑھتے ہیں تو ایسے محسوس کریں گے کہ آپ ان کرداروں کی زندگیوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ ان کی باقی کتابوں کی مانند، بہت پڑھنے والی کتاب ہے۔ پڑھیے دوست۔
بھئی سچی بات ہے کہ ہمیں تو سکندر "اعظم" محسوس نہیں ہوتے، مگر کیا کیجیے کہ عرف عام میں انہیں اعظم ہی کہا اور لکھا جاتا ہے۔ ہمارے لیے تو اعظم "راجہ پورس" ہیں اور تاقیامت رہیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سکندر کے بارے میں پڑھا ہی نہ جائے۔ کتاب اٹھائیے اور پڑھ لیجیے۔ کوئی روک تو نہیں رہا ناں۔
مخمور جالندھری مرحوم نے میخائیل شولوخوف کے اس نوبل انعام یافتہ ناول کا ترجمہ کر کے اس اردو زبان میں بھی لازوال بنا دیا۔ اس ناول میں بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں کے رُوس کی ثقافت و معاشرت اور اجتماعی و انفرادی نفسیات کا بےمثال فن کارانہ بیان ہے۔ پڑھیں گے تو یہ ناول آپ کی یاداشت کا حصہ بن جائے گا۔
اعجاز احمد یوسفزئی آپ کو پاکستان اور افغانستان میں آباد پشتون سماج، تاریخ، رسوم، رواج اور تاریخ میں ارتقا کی نفسیات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ پڑھنے کو یہ اک شاندار تاریخی، سماجی اور معاشرتی کتاب ہے جو آپ کو پشتونوں کے بارے میں بہت عمدہ معلومات فراہم کردے گی۔ پڑھیے دوست۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
پالو کوہیلو کی لکھی ہوئی اس کتاب کو انگریزی میں پڑھنے کا اپنا لطف تو تھا ہی، فہیم احمد صابری صاحب نے وہی لطف اردو میں ڈھال دیا ہے۔ زندگی کی مسلسل کوشش میں الجھے ہر شخص کے لیے ہے یہ کتاب۔ اندھیروں میں روشنی کی امید کیسے ملتی چلی جاتی ہے؛ پڑھنے پر معلوم ہو گا۔ پالو کوہیلو کو مس نہ کیا کیجیے۔ کبھی بھی۔