ایملی برانٹے کا یہ ناول 1846 کی تحریر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے انسانی بیانیے کی وحشیانہ سچائی مزید ابھر کر سامنے آتی جا رہی ہے۔ یہ عشق اور آبسیشن کی داستان ہے؛ پاگل کردینے والا منفی عشق جو انسانوں کو وحشیوں کی لائن میں کھڑا کر دیتا ہے۔ سیف الدین حسام کا شاندار اور لازوال ترجمہ ہے۔ پڑھیے۔
ایملی برانٹے کا یہ ناول 1846 کی تحریر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے انسانی بیانیے کی وحشیانہ سچائی مزید ابھر کر سامنے آتی جا رہی ہے۔ یہ عشق اور آبسیشن کی داستان ہے؛ پاگل کردینے والا منفی عشق جو انسانوں کو وحشیوں کی لائن میں کھڑا کر دیتا ہے۔ سیف الدین حسام کا شاندار اور لازوال ترجمہ ہے۔ پڑھیے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اک ایسے موضوع پر اپنے زاویہ سے لکھا ہے جو نہ صرف مسلم معاشروں، بلکہ دنیا کے تمام معاشروں میں موضوع بحث رہتا ہے۔ یہ بہت مختصر مگر پڑھنے والی کتاب ہے۔ آپ بھلے کتاب سے بعد از اتفاق نہ کریں، تو بھی مخلتف خیال پڑھنا مفید رہے گا۔ پڑھیے جناب۔ پڑھتے رہا کیجیے۔
کرشن چندر کی نسل کے لکھاریوں کے سینوں پر تقسیم ہند اور اس سے جڑے انسانی المیات کے گہرے زخم تھے۔ ہم وحشی ہیں بھی کرشن چندر کے دوسرے ناول، غدار، کی طرح انہی زمانوں پر اک تکلیف دہ بیان ہے۔ تہذیب کے دعویدار انسانوں کو، جو ان زمانوں میں ہوا، زیب نہیں دیتا تھا۔ پڑھیے دوست۔
یہ ناول، اس میں بیان کردہ کہانی آپ کو بہت عرصہ گداز رکھے گی۔ انسانی رشتوں، بالخصوص محبت، وچھوڑے اور اس سے جڑے وہ انسانی جذبات جو انسانوں کو عموما حالات کے رحم و کرم پر لیے پھرتے ہیں؛ ان کا تذکرہ آپ کو اداس کرے گا، اور شاید آپ اس ناول کی کہانی میں اپنے سے جڑے لطیف جذبات میں مماثلت بھی تلاش کر لیں۔
بقول صفدر میر، یونس جاوید نے اپنی تحاریر میں معاشرے کے تضادات کے درست پس منظر کی نشان دہی کی ہے اور وہ عموما معاشرے میں موجود انہی تضادات کے پیدا کردہ المیوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ یونس جاوید کے افسانے پڑھنے والا ان کی مشاہدے کی حساسیت کا گواہ ہوتا ہے۔ آپ بھی بن جائیے۔
مسعود مفتی بیوروکریٹ رہے اور افسانہ نویسی کے ساتھ ساتھ پاکستانی سیاست پر بھی قلم اٹھاتے رہے۔ یہ کتاب مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کی کہانی ہے جس میں حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے اہم حصے بھی نقل کیے گئے ہیں۔ سیاست و تاریخ کے شوقین، ہر پاکستانی کو یہ کتاب لازما پڑھنی چاہیے۔
سلمیٰ اعوان کے نام سے اردو ادب پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔ یہ ان کا ناول ہے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے سماجی، معاشرتی اور انسانی واقعات پر بنیاد کرتا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت مارشل لا دور میں بہت مشکل سے ممکن ہو پائی تھی۔ یہ ان کی باقی کتابوں کی مانند، بہت پڑھنے والی کتاب ہے۔ پڑھیے دوست۔
بھیشم ساہنی بھارت کے شاندار لکھاری اور سوشلسٹ رہنما تھے۔ وہ راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور بٹوارے کی دکھ ساری عمر اپنے دل پر لیے چلتے رہے۔ یہ کتاب آپ کو 1947 کے فسادات کے چند کرداروں کی کہانیاں سناتی ہے جو اک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ ناول کا علاقہ، راولپنڈی ہی ہے۔ تاریخی مگر دکھی کردینے والی کتاب ہے۔
اس کتاب میں اختر حامد خاں آپ کو پاکستان کی جانی پہچانی و تاریخی شخصیات کے بہت مختصر خاکے بیان کرتے ہیں۔ پڑھیے کہ وہ جنرل ضیا، قدرت اللہ شہاب، عصمت چغتائی، سلیم احمد، مولانا محمد علی جوہر کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ بہت چھوٹی، ایک ہی نشست کی مگر دلچسپ کتاب ہے۔ پڑھیے۔
قیصر عباس صابر اردو سفرنامہ نگاری کو آگے بڑھانے والوں میں اک نمایاں حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ تارڑ کے اسلوب پر ان کا مگر اپنا یونیک بیان ہے۔ یہ ان کے شمالی علاقہ جات کے سفر کی جھلک ہے جہاں صرف مقام اور لوگ ہی نہیں، ان کا لطیف بیان بھی ان کے اپنے الفاظ میں موجود ہے۔ پڑھیں گے تو تروتازہ ہو جائیں گے۔
ہمارے ہاں لوگ زیادہ نہیں جانتے، مگر نواب ذوالقدر جنگ بہادر نے مسلم اقتدار سے جڑی تاریخ پر شاندار کتب لکھ رکھی ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اپنی تاریخ سے نابلد لوگ، اپنے حال کو مستقبل میں بہتر طریقے سے لے جانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھیے اور جانیے وہ اسباب جو مضبوط ریاستوں کو برباد کر ڈالتے ہیں!
زمان کی کہانی پڑھیے جو آپ ک زمان و مکاں کے گھمن گھیریوں میں لے جاتی ہے۔ زمان جو ماہ نور کے عشق میں گرفتار ہو کر نور آباد چلا آتا ہے اور وہاں اک پہاڑی سے دل لگا بیٹھتا ہے۔ یہ وہ ناول ہے جو آپ پر بیانیے اور تخیل کی پرتوں پر پرتیں کھولتا ہی چلا جاتا ہے، رکتا نہیں۔ اختر رضا سلیمی کمال لکھتے ہیں۔
یہ بہت خوبصورت کتاب ہے۔ یہ پڑھیں گے تو آپ کو پاکستان کے تمام علاقوں کی ثقافت میں موجود پیار، محبت، قربانی، خسارے، عہد، وفا اور سماج سے بغاوت کی تاریخی و لوک کہانیوں کے بارے میں معلوم ہو گا۔ ہیر رانجھا، سسی پنو، عمر ماروی۔۔۔ اور بہت سے دیگر کردار جن کے بارے میں آپ نے لازما سن رکھا ہو گا۔
ہمارا ماننا ہے کہ اس ناول کو اردو ادب میں وہ مقام نہ مل سکا جو ملنا چاہیے تھا۔ یہ ناول پاکستان کے دیہی معاشرے کے پس منظر میں تحریر کیا گیا ہے۔ آپ کو اس میں شہباز خان کا بہت بھرپور کردار پڑھنے کو ملے گا، بہت ہی بھرپور۔ معاشرتی تضادات اور اس میں مذہب و سرکار کا کردار۔۔۔پڑھنے کی کتاب ہے صاحبو۔