حامد سراج صاحب کے منتخب کردہ 25 افسانے۔ وہ کہتے ہیں: "میں نے جب لکھا، بےخوف ہو کر لکھا۔ تخلیق کار اگر خوف کی چھتری تلے بیٹھ کر لکھے گا تو تخلیق مر جائے گی۔" اس کتاب میں آپ کو اپنے تئیں کے ممنوع موضوعات پر عمدہ اسلوب میں غلام عباس نظر آئیں گے۔ خاص پڑھنے والوں کے لیے خاص تحفہ ہے۔ پڑھیے! یاد کریں گے۔
حامد سراج صاحب کے منتخب کردہ 25 افسانے۔ وہ کہتے ہیں: "میں نے جب لکھا، بےخوف ہو کر لکھا۔ تخلیق کار اگر خوف کی چھتری تلے بیٹھ کر لکھے گا تو تخلیق مر جائے گی۔" اس کتاب میں آپ کو اپنے تئیں کے ممنوع موضوعات پر عمدہ اسلوب میں غلام عباس نظر آئیں گے۔ خاص پڑھنے والوں کے لیے خاص تحفہ ہے۔ پڑھیے! یاد کریں گے۔
جین نام کی اک یتیم لڑکی سے ملیے جس کی زندگی مشکلات سے اٹی پڑی ہے، مگر اسے اپنی قدر و قمیت اور ذہانت کا ادراک بھی ہے۔ وہ جبر اور ناانصافی کے سامنے ڈٹ جانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اپنے نظریات و جذبات کے مابین مشکل فیصلے بھی کر گزرتی ہے۔ سیف الدین حسام کا شاندار ترجمہ اور ہر کسی کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔
شیر شاہ سوری برصغیر پاک و ہند میں اک شاندار فاتح اور بہترین منتظم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس خطے میں جزوی فلاحی ریاست کا خواب انہی کا بویا ہوا ہے۔ یہ بہت عمدہ کتاب ہے اور آپ کو ان کی زندگی، فتوحات اور طرزحکمرانی کے بارے میں شاندار معلومات فراہم کرے گی۔ پڑھیے جناب۔
یہ ڈاکٹر سلیم اختر مرحوم کے بھارت سے ماریشس تک کے سفر کے احوال ہیں اور انہوں نے اپنی روایتی برجستگی سے ہی انہیں بیان کیا ہے۔ اپنے اسلوب میں وہ صرف مقامات کا ہی نہیں، اپنے تجربات اور احساسات کا بھی بیان کرتے چلے جاتے ہیں تو پڑھنے والو کو ان جیسا ہی لطف محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔ پڑھیے دوست۔
جوانی کے اوائل میں ماسکو جانے والے تارڑ، اب اپنے بڑھاپے کی ابتدا میں وہاں جاتے ہیں۔ ان لوگوں سے ملتے ہیں جن سے ان کی ملاقات کئی دہائیوں قبل ایسے ہوئی تھی کہ تب شناسائی نہ تھی۔ اس کتاب کے آخر میں لیو ٹالسٹائی کی قبر کے ساتھ تارڑ کا اک ایسا مکالمہ ہے جو ازخود اک شاہکار ہے۔ پڑھیے، یہ شاندار بیان ہے۔
مسعود مفتی کبھی سرکاری افسر تھے۔ انہوں نے اپنی ملازمت اور پاکستانی تاریخ کے مشاہدات کو ہی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا اور "زندہ تاریخ کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔" وہ بہت دھیمے لہجے میں گہری بات کہنے کے عادی ہیں۔ ان کا اتنا تعارف ہی اس کتاب کے معیار کی دلیل ہو جانا چاہیے۔ نہیں؟ پڑھیں گے تو جانیں گے۔
مولانا وحید الدین جیسے لوگ تمام انسانیت کا ورثہ ہوتے ہیں اس لیے کہ ایسے لوگ اپنی زندگیوں کی دانش معاملات کو پیچیدہ بنائے بغیر آسانیاں تخلیق کرنے کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ روز مرہ کے معاملات میں شاندار رہنمائی فراہم کرتی ہوئی ان کی تحاریر ہر کسی کے لیے پڑھنے کی خاص چیز ہیں۔ آپ کیوں مِس کیجیے گا بھلا؟
نیر مسعود صاحب کا قلم ہو اور بیان ہو میر انیس کا، تو فن مرثیہ نگاری سے شغف رکھنے والوں کو یہ کتاب کیونکر نہیں بھائے گی؟ مرثیہ نگاری ہی نہیں، انیس بڑے پائے و مقام کے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے شاندار تخلیقات کیں اور اردو ادب پر ان کا احسان تاقیامت رہےگا۔ ہر اردو پڑھنے والے کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے جناب۔
جنرل مرزا اسلم بیگ پاکستان کے آرمی چیف رہے اور پاکستان کے بہت سارے رازوں کے امین بھی ہیں۔ انہوں نے اقتدار اور طاقت کو بہت قریب سے دیکھا اور خود اس کا بھرپور اور طویل تجربہ بھی کیا۔ یہ کتاب انہی کے تجربات پر مبنی ہے اور پاکستانی تاریخ کے کئی ابواب پر سے پردہ ہٹاتی ہے۔ لازمی پڑھیے۔
عامر صدیقی کا باکمال انتخاب و ترجمہ ہے۔ یہ پنجاب کی لوک رہتل کی کہانیاں ہیں جو آپ کو دیہاتی، قصباتی اور چھوٹے شہروں کی گلیوں اور بازاروں میں آباد اور گھومتے پھرتے لوگوں میں لے جاتی ہیں۔ ترجمہ نے درحقیقت اصل تحاریر کا عرق جیسے تھا، ویسا ہی قاری کے سامنے پیش کر ڈالا ہے۔ پڑھیں گے تو بہت لطف اٹھائیں گے!
امرتا پریتم کا یہ ناول آپ کو ہلا کر رکھ دے گا۔ اس ناول پر، اسی نام سے اک شاندار فلم بھی بن چکی ہے۔ تقسیم ہند کے معاشرے، بالخصوص عورتوں اور عام لوگوں پر تاثرات شاید ہی کسی دوسری اور اس قدر مختصر کتاب میں اتنے شاندار طریقے سے قلمبند کئے گئے ہونگے۔ یہ لازمی پڑھی جانے والی کتاب ہے۔
رام لعل میانوالی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1947 میں انہیں ہجرت کرنا پڑی۔ زندگی کی کلفتوں نے جب کچھ مہلت دی تو اپنی جنم بھومی دیکھنے چلے آئے۔ اور ایسا لکھ ڈالا کہ اپنے گھروں سے دور ہر اک شخص کے دل کی آواز بن گیا۔ یہ صرف اک فرد کا قصہ نہیں۔ اس لیے بھی کہ برصغیر پاک و ہند سے ہجرت آج بھی جاری ہے۔ پڑھیے جناب۔
یہ مختصر ناول آپ کو ٹائم اینڈ سپیس کی گھمن گھیریوں میں لے جائے گا۔ پرانے دہلی میں اک شخص کا قصہ جو چند ساعتوں میں ہی اپنے موجودہ زمانے سے دو صدیاں آگے نکل جاتا ہے۔ وقت کے پلوں تلے بہت سا پانی گزر چکا ہے، اور اسے دو صدیاں قبل کا شخص ہونے کے باوجود، دو صدیاں بعد کے زمانے میں جینا ہوتا ہے۔ پڑھیے۔
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
ملیے سلطان محمد تغلق سے جو برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے اک فاتح بادشاہ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے جہاں بہت ساری فتوحات کیں، وہیں بہت ساری تعمیرات بھی کروائیں۔ ان کی شخصیت ہماری علاقائی تاریخ کا اک دلچسپ باب ہے۔ تاریخ کے طالبعلموں کو پڑھتے ہوئے یہ کتاب بہت دلچسپ لگے گی۔
عرفان جاوید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اک زندگی میں ہی کئی زندگیاں جی رہے ہیں۔ وہ شاندار نثر نگار ہیں۔ یہ کتاب ان کے مختصر افسانوں کا مجموعہ ہے۔ آپ کو معاشرے کے تضادات اور متفرقات کا بہت دلچسپ انداز میں تعارف کرواتی ہے۔ پڑھیں گے تو جانیں گے کہ معاشرے میں لوگ کیسے کیسے دلچسپ پہلو لیے پھرتے ہیں۔
یہ امرتا کی پہلی کتاب تھی جو پاکستان میں ان کی اجازت سے شائع ہوئی۔ اسے احمد سلیم نے مزید خوبصورت بنایا۔ پڑھیے مشرق و مغرب کے ان نامور لیکن حساس ادیبوں کا تذکرہ، جن کی زندگیاں نامساعد حالات کے سبب گویا پیش از وقت گُل ہو گئیں۔ یہ تفصیلات بہت دردمندی سے یکجا کی گئی ہیں۔