ثمینہ نذیر اک جانا ہوا نام ہیں۔ شاندار ڈرامہ نگار ہیں۔ پاکستانی معاشرت میں خواتین کے مقام و حیثیت کے حوالے سے وہ مسلسل لکھتی اور گفتگو کرتی رہتی ہیں۔ یہ کتاب بھی ان بےچہرہ عورتوں کی کہانی ہے جنہیں کوئی نہیں جانتا، مگر ان کے مقام کے حوالے سے سب جانتے بھی ہیں۔ شاندار اردو تانیثیت ہے؛ پڑھیے جناب۔
ثمینہ نذیر اک جانا ہوا نام ہیں۔ شاندار ڈرامہ نگار ہیں۔ پاکستانی معاشرت میں خواتین کے مقام و حیثیت کے حوالے سے وہ مسلسل لکھتی اور گفتگو کرتی رہتی ہیں۔ یہ کتاب بھی ان بےچہرہ عورتوں کی کہانی ہے جنہیں کوئی نہیں جانتا، مگر ان کے مقام کے حوالے سے سب جانتے بھی ہیں۔ شاندار اردو تانیثیت ہے؛ پڑھیے جناب۔
یہ ناطق کی "انفارمل آٹو بائیوگرافی" کہلوائی جا سکتی ہے۔ ناطق آپ کو اپنے خاندان سے ملواتے ہیں، اپنے گاؤں لیے چلتے ہیں اور اپنی زندگی کے واقعات سے آپ کو سرشار کرتے ہیں۔ اس میں مستریوں کی مزدوری ہے، چوری ہو جانے والی سائیکل ہے، ڈھور ڈنگر ہیں، دوست ہیں۔ بہت عام سا، بہت خاص ہے! پڑھیے۔ یاد رکھیں گے۔
یہ ابدال بیلا کی اپنی تصنیف ہے جو انہوں نے خشونت سنگھ کے اسی نام سے اورینجل ناول، ٹرین ٹو پاکستان، کے حصہ دوم کے طور پر لکھی اور اسے خشونت سنگھ کے نام ہی منسوب بھی کیا۔ یہ بہت مختصر میں گداز والا ناول ہے جو آپ کو یاد رہے گا۔ کیا ہی عمدہ ہو کہ اس کے ساتھ ہی آپ خشونت سنگھ کا ناول بھی پڑھ لیں۔
یہ صدیق عالم کا چوتھا ناول ہے جو 38 گھنٹے کی مدت کا انڈین احوال آپ کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ یہ تیزی سے بدلتے ہوئے انڈین سماج میں معیشت، عدلیہ، فوج، مذہبی جنون، پولیس اور میڈیا پر اک پیچیدہ مگر بہت دلچسپ بیانیہ آپ تک لاتا ہے۔ یہ مختصر ناول آپ اک فہرست میں پڑھ لیں گے کیونکہ یہ بہت دلچسپ ہے۔
ہٹلر کی تحریر کردہ کتاب مائن کمپف کا ترجمہ ہے۔ 1930 میں بغاوت کی اک ناکام کوشش کے بعد، ہٹلر نے یہ کتاب جیل میں تحریر کی تھی۔ اس کتاب نے نازی ازم کے نظریات کو پروان چڑھایا اور اس کا درجن بھر سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ کتاب کا اک حصہ آپ بیتی ہے اور کچھ حصہ سیاسی مقالہ۔ پڑھیے۔
ڈاکٹر اے بی اشرف کے نام سے زیادہ لوگ واقف نہیں۔ اس میں قصور لوگوں کا ہی ہے! ڈاکٹر صاحب معلم رہے ہیں تو انہوں نے اپنی کتاب میں اپنے معلم اور دیگر دوستوں کے شاندار اور دلچسپی سے بھرپور خاکے تحریر کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑے لوگ، صرف بڑے شہروں میں ہی نہیں ہوتے۔ چھوٹے شہروں اور قصبات والے لازمی پڑھیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی ہوں اور موضوع "چچا غالب" ہوں، کتاب تو پھر معجزہ ہی کہلوائے گی۔ ساری دنیا میں اردو پڑھنے والوں کے مشترکہ چچا، غالب، سے شناسائی بڑھانے کا اس سے بہتر وسیلہ شاذ ہی ممکن ہو سکتا تھا جو فاروقی صاحب تخلیق کر گئے۔ غالب کا نام سن رکھا ہے تو یہ کتاب تو پھر آپ پر پڑھنا فرض ہے۔
اردو ادب پڑھنے والا کوئی بھی شخص اردو ادب پڑھنے والا کیسے کہلوا سکتا ہے اگر اس نے عبداللہ حسین کا اداس نسلیں نہیں پڑھ رکھا تو؟ تقسیم ہند کے واقعات کا بیان لیے، یہ وہ ناول ہے جو سیاست، محبت، معاشرت، انسانی رشتوں، اور زندگی کے خسارے کی شاندار تصویر اور تفسیر پیش کرتا ہے۔ لازم/لازم ہے کہ آپ اسے پڑھیں!
آقا محمدﷺ سے محبت، عشق اور عقیدت کا اس سے بہتر بیان جدید اردو میں شاید ہی موجود ہو۔ تارڑ کئی جگہوں پر کہہ چکے ہیں کہ اس غار میں گزاری اک رات کا تجربہ، ان کی زندگی کے اک بہت بڑے حصے کے تجربے سے بڑا ہے۔ کتاب میں واقعاتی بیان تو موجود ہے ہی، روحانیت کی لہریں بھی آپ کو شاد کرتی ہیں۔ پڑھیے، لازمی پڑھیے۔
یہ امرتا کی پہلی کتاب تھی جو پاکستان میں ان کی اجازت سے شائع ہوئی۔ اسے احمد سلیم نے مزید خوبصورت بنایا۔ پڑھیے مشرق و مغرب کے ان نامور لیکن حساس ادیبوں کا تذکرہ، جن کی زندگیاں نامساعد حالات کے سبب گویا پیش از وقت گُل ہو گئیں۔ یہ تفصیلات بہت دردمندی سے یکجا کی گئی ہیں۔
اپنے وطن، شہر، قصبے اور گاؤں سے بچھڑے ہر شخص کے دل کی آواز ہے یہ کتاب۔ کہتے ہیں کہ اس کتاب کی کوئی صنف نہیں، مگر اس کتاب میں آپ کو بہت ساری اصناف اک دوسرے سے باہم مربوط مل جائیں گی۔ اپنی مٹی، ماں، زبان اور گلی محلوں سے محبت اور ان کی یاد رکھنے والے ہر شخص کو یہ کتاب پڑھنا چاہیے۔
شیخ سعدی کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ سرزمینِ ایران سے صدیوں پرانی پھوٹتی دانش کے سرخیل صوفی، بزرگ جو دنیا اور زندگی کے حقیقی امور کو ایسی دلپذیر سچائی سے بیان کرنے کا وصف رکھتے ہیں کہ پڑھنے والا زندگی کی بہت سی ٹھوکروں سے بچ جاتا ہے۔ فہم، ادراک اور شعور: یہ سب سعدی کی پہچان ہیں۔ پڑھیے جناب!
عامر صدیقی کا انتخاب ہو اور پھر ترجمہ بھی انہی کا تو کتاب پڑھنے والی خودبخود بن ہی جاتی ہے۔ یہ سندھی شہروں، قصبوں اور دیہاتی لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ یہ وہ عام کہانیاں ہیں جن میں سے بہت ساری شاید ہم پر خود بھی کبھی بیتی ہونگی۔ یہ پڑھنے والی دلچسپ کہانیاں آپ کو سندھ لیے چلیں گی؛ چلیں گے؟
سلطان عمادالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی اسلامی تاریخ کے شاندار ابواب ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کو پڑھنا نامکمل رہتا ہے۔ یہ کتاب آپ کو اس عظیم مسلم فاتح، سپہ سالار اور حکمران کے بارے میں بہت عمدہ تفصیلات فراہم کرتی ہے۔ پڑھنے پر آپ انہی کے زمان و مکاں میں پہنچ جاتے ہیں۔
صدیق عالم کی مختصر کہانیوں کا یہ پہلا مجوعہ ہے اور اس میں وہ آپ کو بھارتی سماج کی چکر کھاتی راہداریوں اور گلیوں میں لیے جاتے ہیں۔ ہمارا خطہ ایک ہی ہے تو آپ کو یہ کتاب پڑھتے ہوئے اپنے ہاں کی بھی بہت مماثلتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ وہاں کی نہیں، یہاں کی کہانیاں ہیں۔ پڑھیں جناب۔ پڑھیں!