اس کتاب میں صرف امرتا کا ہی شاندار بیان اس ناول کی صورت میں موجود نہیں۔ ا س میں بلراج ورما، راکا سنہا، احمد سلیم کی امرتا سے باتیں اور ان پر بیان ہے۔ خود امرتا نے اس دلگداز اور ایوارڈ یافتہ ناول کا تعارف دیا ہے۔بہت ہی محبت سے بچوں کے نام کی ہے یہ کتاب جو انکے بقول "میری طرح ریاضت کے دکھ نہیں جانتے!"
اس کتاب میں صرف امرتا کا ہی شاندار بیان اس ناول کی صورت میں موجود نہیں۔ ا س میں بلراج ورما، راکا سنہا، احمد سلیم کی امرتا سے باتیں اور ان پر بیان ہے۔ خود امرتا نے اس دلگداز اور ایوارڈ یافتہ ناول کا تعارف دیا ہے۔بہت ہی محبت سے بچوں کے نام کی ہے یہ کتاب جو انکے بقول "میری طرح ریاضت کے دکھ نہیں جانتے!"
اس تاریخی ناول نے مغلیہ عہد کا تذکرہ اس شاندار لب ولہجہ میں کیا ہے کہ شہنشاہی جاہ و جلال قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ مرکزی کردار "داراشکوہ" برصغیر میں طاقت کے سامنے مزاحمت کا تاریخی استعارہ ہیں۔ پڑھیے تو یہ تاریخی ناول آپ کے سامنے مغلیہ تہذیب کا نفسیاتی تجزیہ اور تاریخی بھی بیان کرے گا۔
مولانا وحید الدین اختصار کے ساتھ پیچیدہ معاملات کو بیان کرنے کے بادشاہ ہیں۔ ان کی نظر تاریخ، اور بالخصوص اسلام سے جڑے ہوئے معاملات کی تاریخ پر بہت گہری تھی۔ ان کی تحاریر صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے آسانیاں بانٹتی نظر آتی ہیں۔ انہیں پڑھا کیجیے بہت فائدہ میں رہیں گے!
یہ ابدال بیلا کی اپنی تصنیف ہے جو انہوں نے خشونت سنگھ کے اسی نام سے اورینجل ناول، ٹرین ٹو پاکستان، کے حصہ دوم کے طور پر لکھی اور اسے خشونت سنگھ کے نام ہی منسوب بھی کیا۔ یہ بہت مختصر میں گداز والا ناول ہے جو آپ کو یاد رہے گا۔ کیا ہی عمدہ ہو کہ اس کے ساتھ ہی آپ خشونت سنگھ کا ناول بھی پڑھ لیں۔
شاندار منظر اور کردار نگاری آپ کو مبہوت کر دے گی۔ پڑھیے کہ بظاہر اک دوسرے سے کٹے ہوئے لوگ، اک معاشرے میں مگر کیسے اک دوسرے کی کہانیوں کے حصے بن جاتے ہیں۔ یہ پاکستان نہیں، دنیا میں بسنے والے ہر عام شخص کی کہانی ہے۔ ضامن علی کے کردار کی حتمی اٹھان، آپ کو حیران کر دے گی۔
تارڑ صاحب آپ کو کمبیوڈیا لیے چلتے ہیں۔ آپ کو بھی ان کے ساتھ، وہاں جائے بغیر جانے کا اک موقع مل رہا ہے تو آپ جاتے کیوں نہیں؟ پڑھیں اور ان کے ساتھ کمبوڈیا کی تاریخ، معاشرت، لوگوں، ثقافت، تاریخی مقامات، رسوم اور رواج کے بارے میں جان جائیں تارڑ صاحب کی کیا ہی بات ہے!
سلمیٰ اعوان جانی پہچانی افسانہ نویس ہیں۔ ان کی یہ کتاب اداس کہانیوں سے مزین ہے۔ اداسی اور خسارہ بھی ادب ہی کی اصناف ہیں اور بہت ساری نفسیاتی گتھیوں کو زمانے اور زندگی کی حقیقی رنگوں میں بیان کرتی ہیں۔ یہ عورتوں کی کہانیاں ہیں اور ان کی اپنی اپنی طرز کی سٹرگلز کی بھی۔ پڑھیے؛ دل گداز محسوس کیجیے گا۔
اجمل کمال آپ کے لیے لائے ہیں اک بار پھر اپنے انتخاب سے عربی کہانیاں۔ شاندار ترجمہ جو آپ کو کتاب میں دلچسپی کے ساتھ انگیج رکھے گا۔ اس کتاب کو پڑھیے اور یوسف ادریس، زکریا تامر، الیفہ رفعت، نبیل جورجی اور طیب صالح کے علاوہ اور بہت سے عربی لکھاریوں کے اسلوب کا لطف لیجیے۔ یاد رکھیں گے، دوست۔
عامر صدیقی کا باکمال انتخاب و ترجمہ ہے۔ یہ پنجاب کی لوک رہتل کی کہانیاں ہیں جو آپ کو دیہاتی، قصباتی اور چھوٹے شہروں کی گلیوں اور بازاروں میں آباد اور گھومتے پھرتے لوگوں میں لے جاتی ہیں۔ ترجمہ نے درحقیقت اصل تحاریر کا عرق جیسے تھا، ویسا ہی قاری کے سامنے پیش کر ڈالا ہے۔ پڑھیں گے تو بہت لطف اٹھائیں گے!
یہ ناطق کی "انفارمل آٹو بائیوگرافی" کہلوائی جا سکتی ہے۔ ناطق آپ کو اپنے خاندان سے ملواتے ہیں، اپنے گاؤں لیے چلتے ہیں اور اپنی زندگی کے واقعات سے آپ کو سرشار کرتے ہیں۔ اس میں مستریوں کی مزدوری ہے، چوری ہو جانے والی سائیکل ہے، ڈھور ڈنگر ہیں، دوست ہیں۔ بہت عام سا، بہت خاص ہے! پڑھیے۔ یاد رکھیں گے۔
یہ ڈاکٹر سلیم اختر مرحوم کے بھارت سے ماریشس تک کے سفر کے احوال ہیں اور انہوں نے اپنی روایتی برجستگی سے ہی انہیں بیان کیا ہے۔ اپنے اسلوب میں وہ صرف مقامات کا ہی نہیں، اپنے تجربات اور احساسات کا بھی بیان کرتے چلے جاتے ہیں تو پڑھنے والو کو ان جیسا ہی لطف محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔ پڑھیے دوست۔
یہ جسٹس سید افضل حیدر کا خوبصورت محبتی بیان ہے، جناب حضرت میاں علی محمد خان (بسی شریف، ہشیار پور، انڈیا اور پھر پاک پتن شریف کے بارے میں۔ اس کتاب میں چشتیہ سلسلہ کے اِن بزرگ کے احوال و معمولات کا ذکر ہے۔ یہ روحانی محبت میں ڈوبی ہوئی بہت دھیمے مزاج کی کتاب ہے۔ پڑھیے جناب۔
ہمیں کہنے دیجیے کہ مرزا حامد بیگ صاحب کے افسانوں کو پاکستان میں ان کا اصل مقام ملنا چاہیے؛ کیوں؟ یہ کتاب اس کی دلیل ہے۔ ان کے باقی افسانوں، کہانیوں اور ناولز کی طرح، یہ کتاب بھی اپنی طرز کی منفرد کتاب ہے۔ انہیں پڑھا کیجیے۔ وہ بہت شاندار لکھتے ہیں۔ بہت۔
یہ آصف فرخی مرحوم کے سفر کا بیان ہے جو انہوں نے انتظار حسین مرحوم کے ساتھ کیا جب وہ دنیا کے اک مشہور ادبی میلے "مین بکرز پرائز" میں شرکت کے لیے جاتے ہیں۔ آصف اس قصے کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ یہ محض اک سفرنامہ کی روئیداد نہیں رہتا، اک تخلیقی معاملہ بن کر قاری کے سامنے آ جاتا ہے۔ پڑھیے دوست، پڑھیے۔
پنجاب کے اک گاؤں کا سچا واقعہ ہے جہاں اک نوزائیدہ بچے کو ناجائز قرار دے کر سنگسار کر دیا گیا تھا۔ کچھ اسی بابت تارڑ نے بھی خس و خاشاک زمانے میں تحریر کیا ہے، مگر یہ ناولٹ اسی اک واقعہ پر بالخصوص پنجاب کے پیری-مریدی کے کلچر کے پس منظر میں لکھا گیا۔ کردار نگاری آپ کو ہلا کر رکھ دے گی۔ سچ ہے؛ پڑھیں گے؟
ممتاز مفتی صاحب سے اردو پڑھنے والوں میں سے کون واقف نہیں؟ وہ منفرد اسلوب والے شاندار لکھاری تھے۔ وہ نہیں رہے مگر ان کی تخلیقات تاقیامت ہم میں موجود رہیں گی۔ ویسے آپ سے معذرت یہ بھی کرنا ہے کہ آپ کو عین یہی تعارف ان کی باقی تمام کتب کے بارے میں بھی پڑھنا پڑے گا۔ کیونکہ، مفتی صاحب کا "نام ہی کافی ہے!"
اگر آپ اردو ادب پڑھتے ہیں اور اخلاق احمد کے نام سے واقف نہیں تو جناب، ہمیں یہ کتاب آپ کو فروخت کرنا بھی نہیں۔ بلکہ حیرت ہے کہ آپ اگر افسانہ پڑھنے والے ہیں اور آپ انہیں پڑھنے سے تاحال محروم ہیں؟ اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ شکیل عادل زادہ ان کی تعریف کرتے ہیں۔ پڑھیں، پڑھیں، پڑھیں!